Skip to content Skip to footer

آئینہ خانہ (i)

آئینہ خانہ بھی اندوہِ تمنا نکلا

غور سے دیکھا تو اپنا ہی تماشا نکلا

 

زندگی محفلِ شب کی تھی پس انداز شراب

پینے بیٹھے تو بس اک گھونٹ ذرا سا نکلا

 

پھر چلا موسمِ وحشت میں سر متصلِ عشق

قرصۂ فال میرے نام دوبارہ نکلا

 

وادِ شائستگی غم کی توقع بے سُود

دِل بھی کم بخت طرف دار اسی کا نکلا

 

ہے عجب طرز کا رہرو ، دلِ شوریدہ قدم

جب بھی نکلا سفر عشق پہ تنہا نکلا

 

وہ رقیبوں کا پتہ پوچھنے آیا مرے گھر

کوئی تو اسے ملاقات کا رستہ نکلا

 

دربدر خوار ہوئے پھرتے ہیں ہم ہجر نصیب

جاں سپاری کا بھی کیا خوب نتیجہ نکلا

 

دل میں اٹھتے رہے یادوں کے بگولے تشؔنہ

مجھ میں سمٹا ہوا ، اک درد کا صحرا نکلا

بین اور ناگن (ii)

بین اور ناگن کا رسیا ہوں

پیار کی بامبنی میں رہتا ہوں

 

اپنے خوابوں کے دروازے

کب سے بند کیے بیٹھا ہوں

 

دِیا اندھیرے بانٹ رہا تھا

میں بھی جھولی بھر لایا ہوں

 

ہرا بھرا ہے لان کا سبزہ

اندر سے میں سوکھ رہا ہوں

 

گھر میں آنگن بھی ہوتا تھا

اب تو میں یہ بھول چکا ہوں

 

آج بھی یہ معلوم نہیں ہے

میں کس کس کا ہمسایہ ہوں

 

اب تو ایک سزا باقی ہے

عمرِ محبت کاٹ چکا ہوں

 

مجھے بجھانا کھیل نہیں ہے

میں تو چراغِ شہرِ ہوا ہوں

بیٹھا ہوں جاں (iii)

بیٹھا ہوں جاں سپرد کیے یار کے قریب

جس طرح کوئی سر رکھے تلوار کے قریب

 

کل رات روشنی کا کرشمہ تھا دیدنی

جلتا تھا اِک چراغ رُخ یار کے قریب

 

ہم کو بھی بیٹھے کے لیے مل گئی جگہ

اُس کی گلی میں سایہِ دیوار کے قریب

 

شوریدگئی اہلِ محبت کو چاہیے

کوچہ اک اور کوچۂ دلدار کے قریب

 

پڑنے لگا سیاستِ درباں سے واسطہ

پہنچے تھے مشکوں سے درِ یار کے قریب

 

اِک تو ہی کیا یہاں تو کسی کو خبر نہیں

بیٹھا ہے کون کیوں تری دیوار کے قریب

 

تشؔنہ مباحثِ گل و عارض بھی ہوں تمام

رکھ دیکھئے گلاب خسار کے قریب

درد کی اِک لہر (iv)

درد کی اِک لہر بل کھاتی ہے یوں دل کے قریب

موجِ سرگشتہ اُٹھے جس طرح ساحل کے قریب

 

ماسوائے کارِ آہ و اشک کیا ہے عشق میں

ہے سوادِ آب و آتش دیدہ و دل کے قریب

 

درد میں ڈوبی ہوئی آتی ہے آوازِ جرس

گریۂ گم گشتگی سنتا ہوں منزل کے قریب

 

آرزو نایافت کی ہے سلسلہ در سلسلہ

ہے نمودِ کربِ لا حاصِل بھی حاصِل کے قریب

 

کچھ تو اسے نظارگانِ عیشِ ساحل بولئیے

کشتیاں کتنی ہوئیں غرقاب ساحل کے قریب

 

ہے ابھی داماندگی کو اک سفر درپیش اور

ہے ابھی افتادِ منزل اور منزل کے قریب

 

مرگِ حسرت کا تماشا دیکھنا تھا گر تمہیں

رقص آخر دیکھتے تم آکے بسمل کے قریب

 

ہیں وہ سب تشؔنہ سرِ منرل امیرِ کارواں

جو ملے تھے کارواں سے آ کے منزل کے قریب

مری طرح سرِ محفل (v)

مری طرح سرِ محفل اُداس تھا وہ بھی

کسی نے حال جو ہوچھا تو رو دیا وہ بھی

 

ہوائے شام کی جس سے شکائتیں کی تھی

چراغ بامِ تمنا بجھا گیا وہ بھی

 

جو دے گیا تھا خبر دشمنوں کے شب خوں کی

مرے مکاں پہ نشانی لگا گیا وہ بھی

 

خیالِ طعنئہ یاراں نہ خوفِ رُسوائی

ہر اک سفر میں مرے ساتھ ساتھ تھا وہ بھی

 

نیا نیا تھا ہمیں بھی جنوں پرستش کا

بنا ہوا تھا سرِ انجمن خُدا وہ بھی

 

کرے گا کون اب آشوبِ ذات کا ماتم

اک آدمی تھا جو مجھ میں مر گیا وہ بھی

 

ہمیں بھی ایک ہی موسم کا تھا دماغ کہاں

ہر ایک عہدِ وفا سے مُکر گیا وہ بھی

 

رفاقتوں کا صلہ یہ بھی کم نہیں تشؔنہ

ہمارا نام جب آیا تو ہنس پڑا وہ بھی

گنتی میں بے شمار تھے (vi)

گنتی میں بے شمار تھے کم کر دئیے گئے

ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دئیے گئے

 

پہلے نصابِ عدل ہوا ہم سے انتساب

پھر یوں ہوا کہ قتل بھی ہم کر دئیے گئے

 

پہلے لہو لہان کیا ہم کو شہر نے

پھر پیرہن ہمارے علم کر دئیے گئے

 

ہر دور میں رہا یہی آئینِ منصفی

جو سر نی جھک سکے وہ قلم کر دیئے گئے

 

اس دورِ ناشناس میں ہم سے عرب نژاد

لب کھولنے لگے تو عجم کر دئے گئے

 

جب درمیان میں آئی کمالِ بشر کی بات

ہفت آسمان زیرِ قدم کردئیے گئے

 

پہلے ہی کم تھی قریۂ میں روشنی

اور اس پہ کچھ چراغ بھی کم کردیئے گئے

 

تشؔنہ جو لفظ مصلحتاً ہم نہ کہہ سکے

دیوارِ وقت پر وہ رقم کر دئیے گئے

حدِّ سفر کو (vii)

حدِّ سفر کو سدِّ سکندر کہا گیا

مجبوریِ عمل کو مقّدر کہا گیا

 

پانی کی وحشتوں کا بھنور نام پڑ گیا

دریاؤں کی لحد کو سمندر کہا گیا

 

سُورج لہو ہوا تو شفق پھوٹنے لگی

آغازِ شب کو شام کا منظر کہا گیا

 

ڈالے گئے شگاف دریچوں کے نام پر

دیور کا تھا زخم جسے در کہا گیا

 

اپنی ہی عیب پوشی کو پوشاک کر لیا

تہذیب کا تھا جبر جسے گھر کہا گیا

 

ذوقِ نمو کو صبح ازل نام دے دیا

جشنِ ظہورِ ذات کو محشر کہا گیا

 

تشؔنہ تری غزل پہ یہ دادِ سخن شناش

سن کر ہر ایک شعر مکرر کہا گیا

اِک دشتِ آرزو ہے (viii)

اِک دشتِ ہے آرزو ہے کہ پھیلا ہے دور تک

اور رہ روانِ شوق کو جانا ہے دُور تک

 

اب تو نہ تیرے قُرب کی خوشبو نہ کیفِ شب

اک بے کنار ہجر کا صحرا ہے دُور تک

 

لو آخری دموں پہ ہے اسے خستگانِ شب

بجھتے ہوئے چراغ کا سایہ ہے دور  تک

 

وہ دشتِ بے اماں ہے کہ سایہ نہ سائباں

سُورج نے اپنا حال بچھایا ہے دُور تک

 

قدموں کی چاپ آتی رہی دیر تک مجھے

جیسے مجھے منانے وہ آیا ہے دُور تک

 

یہ عالمِ خیال ہے یا عالمِ مثال

اپنی ہی خواہشوں کا تماشا ہے دُور تک

 

وہ کاروانِ رنگ تھا گزرا چلا گیا

آنکھوں نے گردِ راہ کو چُوما ہے دور تک

 

تشؔنہ ذرا سفؔینہ جان کو سنبھالنا

سیلاب کے حصار میں دریا ہے دُور تک

اِن خواب نگار آنکھوں میں (ix)

اِن خواب نگار آنکھوں میں تری کاجل سا چراغِ شام کا ہے

ہر موسم تیری نسبت سے ، منظر تیرے نام کا ہے

 

دِن ڈھلا تو شب کے بستر پر ، تری زلف کی افشاں بکھر گئی

یہ دُنیا جس کو چاند کہے ، اک دِیا وہ تیرے بام کا ہے

 

ہاتھوں کے حصار میں لَو رکھا ، ہیں روشنیوں کے عدد بہت

اس تیز ہوا کے موسم میں مجھے ڈھٹرکا چراغِ شام کا ہے

 

کوئی لے کر آئے تازہ ہوا، کوئی جھونکا  ٹھنڈے موسم کا

یہ لمحے بڑے آشوب کے ہیں ، یہ وقت بڑے آلام کا ہے

 

اُسے اپنے رستوں چلنا تھا ، اُسے جانا تھا ، وہ چلا گیا

پَل دو پَل کی ہم سفری تھی ، اب رونا صبح و شام کا ہے

 

اس قصۂ غم کا غم نہ کرو ، تم اپنی آنکھیں نم نہ کرو

یہ حال اُسی بے حال کا ہے ، یہ نام اُسی بدنام کا ہے

 

سُنتے ہیں کہ تشؔنہ تیری غزل ، مقبول ہے ماہ رخوں میں بہت

کہتے ہیں کہ شہر ِ نگاراں میں بڑا شہرِہ تیرے کلام کا ہے

جدھر بھی دیکھتا ہوں (x)

جدھر بھی دیکھتا ہوں ، اک تحیر ہے ، تماشا ہے

خدایا کس سے پوچھوں ، آئینے کے اس طرف  کیا ہے

 

سنا ہے قریۂ جاں سے ہے آگے کوچہ جاناں

مگر یہ راستہ آشوبِ جاں سے ہو کے جاتا ہے

 

تم اپنے دل کی ویرانی سے آنکھیں مت بجھا لینا

دریچے ہوں اگر روشن تو گھر آباد لگتا ہے

 

طنابِ حنسیمۂ جاں کھینچ لیں سب قافلے والے

سکوتِ شب یہ کہتا ہے کہ پھر طوفان کا خطرہ ہے

 

ابھی تو راستوں کی تجھ سے ہونی ہے حنا بندی

ابھی اے آبلہ پائی تجھے کانٹوں پہ چلنا ہے

 

غبار راہ کیا ہم تو تھکن بھی چھوڑ آئے ہیں

ہمیں آتا ہے تکمیلِ سفر کا جو قرینہ ہے

 

ہمیں ساحل پہ رکھویا سرِ گرداب چھوڑ آؤ

یہ کشتی بھی تمہاری ہے ، یہ دریا بھی تمہارا ہے

 

کتابوں کا لکھا تو عمر بھر تم نے پڑھا  تشؔنہ

ذرا وہ  تو پڑھ لیتے جو دیواروں پہ لکھا ہے 

خشک پتے جو بہاروں میں(xi)

خشک پتے جو بہاروں میں شجر پر رہ جائیں

پھول انجامِ نمو دیکھیں تو ڈر کر رہ جائیں

 

آپ یہ شملہ دو ستار سنبھالیں نہ بہت

عافیت جانیے ، شانوں پہ اگر سر رہ جائیں

 

کارِ آساں نہیں کچھ راہِ وفا پر چلنا

جان پیاری جنہیں شوق سے گھر پر رہ جائیں

 

ہم نے اس خوف سے دیکھا نہیں پیچھے مڑ کر

سحرِ آواز سے  پتھر ہی نہ بن کر رہ جائیں

 

ان سے پوچھو کسے منزل کا اَلَم کہتے ہیں

جو سرِ سایۂ دیوار پہنچ کر رہ جائیں

 

عہد کوتاہ قداں میں یہ عنیمت ہے بہت

ہم اگر اپنے ہی قامت کے برابر رہ جائیں

 

اتنی بڑھ جائے نہ تشؔنہ کہیں ویرانی شہر

سر نہ باقی رہیں اور ہاتھ میں پتھر رہ جائیں

کس دشت کو جانکلیں (xi)

کس دشت کو جانکیں اب کون سے گھر جائیں

ہم کوچۂ جاناں سے جائیں تو کدھر جائیں

 

اس ساعتِ شب گوں میں لَودے کوئی دل شاید

لہجے میں چراغوں کے ہم بات تو کر جائیں

 

بیتے ہوئے موسم کی کچھ پھُول سی یادیں ہیں

مرہم نظرو دیکھو یہ زخم نہ بھر جائیں

 

بے ساحل و بے طوفان یہ کشتئ جاں کب تک

یا ڈوب کے رہ جائیں یا پار اتر جائیں

 

ہر حال میں کرتے ہیں رستے تو پذیرائی

ہم تاج بہ سر گزریں یا خاک بہ سر جائیں

 

آجائیں ہمیں بھی کچھ آداب محبت کے

الجھیں تری زلفوں میں ایسے کے سنور جائیں

 

 اے کاش ہمیں آئے یہ خاص ہُنر ان کا

خود عہدِ وفا باندھیں اور صاف مُکر جائیں

 

بچپن کا وہ شہزادہ کیا یاد نہیں تشؔنہ

ملنے اسی بالک سے ہم خیر نگر جائیں

کچھ ضروری نہیں(XII)

کچھ ضروری نہیں ہر اشک کا گوہر ہونا

ہر تماشے کو میسر نہیں منظر ہونا

 

ایک آنسوں میں ہوئیں ڈوب کے قلزم آنکھیں

باور آیا ہمیں قطرے کا سمند ہونا

 

سرکشیدہ ہیں گلستاں میں بہاریں تجھ سے

تیرے قامت پہ سجا سرووضو بر ہونا

 

میں بھی دریا کی طرح آؤں گا چل کر تم سک

ظرف میں تم بھی سرِ شام سمندر ہونا

 

ہم نے پسپائی بھی دیکھی ہے سو ہم جانتے ہیں

کوئی آساں نہیں ہارا ہوا لشکر ہونا

 

باز رکھتا ہے سنانے سے ہمیں حال اپنا

قصۂ عشق کے ہر لفظ کا دفتر ہونا

 

زخم لفظوں سے بھی  لگ جاتے ہیں نشتر کی طرح

تم نے خود دیکھ لیا پھول کا پتھر ہونا

 

ان در و بام کی حسرت نہیں دیکھی جاتی

جن کی تقدیر میں لکھا ہے مرا گھر ہونا

 

یہی اک رسم ہے تشؔنہ سرِ دربارِ ستم

واجبِ وار ہے ، دستار کا سر پر ہونا 

لوحِ قسمت(XII)

لوحِ قسمت کا لکھا ہے عشق میں ہجر و وصال

کب شکایت آپ سے ہے کب گِلہ دنیا سے ہے

 

چھوڑتا ہے جیسے رگ رگ میں کوئی مہتابیاں

موجِ خوں میں سیلِ آتش شعلئہ بادہ سے ہے

 

یوں تو اک اورنگِ آستعجاب ہے دنیا تمام

اعتبارِ عکسِ جاں اک آئینہ سیما سے ہے

 

ورنہ کیا رکھا ہے گلشن میں سوائے خار و خس

سرو کو زیبائی اس کے قامتِ بالا سے ہے

 

جن سے بھی ملتا ہے ہوتا ہے طلبگارِ وفا

یہ دل سادہ نفس نا آشنا دنیا سے ہے

 

عکس اپنا دیکھنا بھی کب گوارا ہے اُسے  

آئینہ بھی غرقِ حیرت حُسنِ بے پروا سے ہے

 

اشک آنکھوں میں سرشکِ غم سے ہیں آئے ہوئے

ریگ ِ ساحل کی نمی جوش ِ کفِ دریا سے ہے

 

خواہشِ صد برگ سے ہے موسم گل پیرہن

رونقِ ہر میکدہ سرمستی تشؔنہ سے ہے

لمحہ لمحہ عرصۂ جاں(XII)

لمحہ لمحہ عرصئہ جاں میں بکھرا ہے

سنگِ نفس سے شیشئہ ساعت ٹوٹا ہے

 

روشنیاں خوشبو لے کر اڑ جاتی ہیں

پھونکوں سے یہ کون چراغ بجھاتا ہے

 

جینے کے اثار ابھی کچھ باقی ہیں

آئینہ انفاس ابھی دھندلاتا ہے

 

ایک پرندہ کھلی فضا میں آڑنے کو

مجلس جاں میں پر پھیلائے بیٹھا ہے

 

بند اگر ہوں کان تو پھر اپنے اندر

طوفان کا شور سنائی دیتا ہے

 

لہو کا ہر قطرہ جیسے موجِ بلا

دِل میں اک طوفان سا برپا رہتا ہے

 

دیکھنے والی آنکھ کو آج کے پردے میں

کل کا منظر صاف دکھائی دیتا ہے

 

جشنِ عیشِ گر یہ آج منائیں ہم

اے تنہائی ، وہ بھی آج اکیلا ہے

 

تشؔنہ تھا جو ہم دونوں کی راہگزر

اب وہ رستہ سُونا سُونا رہتا ہے

میں اپنی دعاؤں کی(XIII)

میں اپنی دعاؤں کی دیتا ہوں سپر تم کو

تم چاہے جہاں رہنا بے خوف و خطر رہنا

 

برسات کی شاموں کا منظر ہے یہی تشؔنہ

کاجل بھری آنکھوں میں اشکوں کی گُہر رہنا

 

ان کے رُوبرو کرتے درد تم بیاں اپنا

کربِ شامِ غم اپنا حالِ زارِ جاں اپنا

 

ہم بھی اک بلندی سے دیکھتے یہ ہنگامے

یہ زمیں تری ہوتی اور آسماں اپنا

 

جامِ بے مے قدر میں اک کوزۂ بے منزلت

شعلۂ مینا فروغِ نشئہ صہبا سے ہے

 

عشق کی مہمیز کو روکے ہوئے ہے احتیاط

رخشِ و حشت کو شکایت تنگی صحرا سے ہے

 

خوفِ شب خونِ جنوں نے چھین لی راتوں کی نیند

قافلے کی بے پناہی ناقۂ لیلیٰ سے ہے

 

درد کے گرداب میں ہے اک دلِ طوفاں نصیب

کشتئی بے بادباں کو واسطہ دریا سے ہے

 

ہے سفر منتِ کشِ موجِ تغیر آشنا

کارواں بے سمت و بے منرل ہوا پیما سے ہے

 

کورچشمی کے لیے تو ایک ہیں سرخ و سفید

یہ شعور رنگِ دنیا دیدۂ بینا سے ہے

میری ایذا طلبی(XIV)

میری ایذا طلبی کا یہی خمیازہ ہے

دلِ کی ہر چوٹ ہری زخم ہنر تازہ ہے

 

عرصۂ جاں میں سمیٹوں میں کہاں تک تجھ کو

زندگی تیرا تو بکھر ہوا شیرازہ ہے

 

ڈوب جاؤ گے تو ساحل نہ کبھی پاؤ گے

مجھ کو اُن کی آنکھوں گہرائی کا اندازہ ہے

 

تم کسی دنِ اگر آجاؤ تو مجھ پر بھی کھلے

لوگ کہتے ہیں مرے گھر میں بھی دروازہ ہے

 

میرے لوگوں کو تعجب ہے یقیں سے بڑھ کر

شاخ سے ٹوٹ کر اب تک یہ ثمر تازہ ہے

 

چُھولیا تم نے تو پہچان لیے جاؤ گے

دیکھنا روغنِ دیوار ابھی تازہ ہے

 

پھول توڑا ہے ابھی دستِ صبانے تشؔنہ

شاخِ لالہ پہ ابھی زخم نمو تازہ ہے

مری طرح سرِ محفل(XV)

مری طرح سرِ محفل اُداس تھا وہ بھی

کسی نے حال جو ہوچھا تو رو دیا وہ بھی

 

ہوائے شام کی جس سے شکائتیں کی تھی

چراغ بامِ تمنا بجھا گیا وہ بھی

 

جو دے گیا تھا خبر دشمنوں کے شب خوں کی

مرے مکاں پہ نشانی لگا گیا وہ بھی

 

خیالِ طعنئہ یاراں نہ خوفِ رُسوائی

ہر اک سفر میں مرے ساتھ ساتھ تھا وہ بھی

 

نیا نیا تھا ہمیں بھی جنوں پرستش کا

بنا ہوا تھا سرِ انجمن خُدا وہ بھی

 

کرے گا کون اب آشوبِ ذات کا ماتم

اک آدمی تھا جو مجھ میں مر گیا وہ بھی

 

ہمیں بھی ایک ہی موسم کا تھا دماغ کہاں

ہر ایک عہدِ وفا سے مُکر گیا وہ بھی

 

رفاقتوں کا صلہ یہ بھی کم نہیں تشؔنہ

ہمارا نام جب آیا تو ہنس پڑا وہ بھی

موجِ ہائے یادِ نگاراں(XVI)

موجِ ہائے یادِ نگاراں رات گئے جب چلتی ہے

تارِ نفس میں بل پڑتے ہیں جسم سے جان نکلتی ہے

 

توڑتا ہے زنجیرِ قیودِ قسمت کو مجبورِ خرام

ذوقِ سفر کی محرومی راتوں کو نیند میں چلتی ہے

 

پھر ہوتا ہے حشرِ تماشا ہوتی ہے صبح ِ ازل

نشہ پیکر بادۂ ہستی جامِ سفال میں ڈھلتی ہے

 

وہ میرے پہلو میں جب بیٹھا تو یہ محسوس ہوا

ساحل کی ہم آغوشی میں جیسے موج مچلتی ہے

 

جوگ لیا ہے سب گلشن نے سوگ میں ہجر بہارا کے

ٹہنی ٹہنی صحن ِ چمن میں زرد لباس بدلتی ہے

 

اٹھ جائے گا بر سرِ محفل پردۂ ظرفِ مے نوشی

دیکھنا یہ ہے پی کر دنیا گرتی ہے کہ سنبھلتی ہے

 

کیسی آنکھیں پھیرلیں ہم سے سارے آہو چشموں نے

وقت بدلتے ہی یہ دنیا کیسا رنگ بدلتی ہے

 

میں ہی وہ مہتاب قدم ہوں کہکشاں در کہکشاں

گردشِ ہفت افلاک بھی جس کی ہمراہی میں چلتی ہے

 

تشؔنہ فراقِ یار کی راتیں ہوتی ہیں آہستہ خرام

شمع دیارِ جاں سوزی میں دھیمے دھیمے جلتی ہے

پہلے دل(XVII)

پہلے دل اختیار میں رکھنا

پھر قدم کوئے یار میں رکھنا

 

چل  رہی ہے ہوائے شب آثار

روشنی کو حصار میں رکھنا

 

لوگ کیوں تیرگی میں ہوں مصلوب

اکِ دیا طاقِ دار میں رکھنا

 

کچھ تو آسان ہو مسافت شب

اک دیا ھگذار میں رکھنا

 

تم کو مرہم نظر بنایا ہے

زخم سارے شمار میں رکھنا

 

کچھ تو خوئے سفر نوازی بھی

شجر سایہ دار میں رکھنا

 

باندھنا روز اک قرار نیا

ہم کو قول و قرار میں رکھنا

 

کر کے تجدیدِ وعدۂ فردا

عمر بھر انتظار میں رکھنا

 

عکس جاں کو سمیٹ کر تشؔنہ

دستِ آئینہ دار میں رکھنا

رات ہوائے درد کا زور(XVIII)

رات ہوائے درد کا زور کوئی چلا نہیں

ٹوٹی نہیں طنابِ دل خیمئہ جاں گرا نہیں

 

 

طاہر مشتِ خاکِ پر یوں نہ فضاؤں میں بکھر

بیٹھ جا پائے دشت میں تیرے لیے فضا نہیں

 

وہ رُخِ ماہ نیم ماہ روشنئ دل و نگاہ

کوئی چراغِ شب فروز اس کی مثال کا نہیں

 

ہم سے خزاں خراب کو عیشِ بہار سے عرض

ہم ہیں وہ سعئی رائیگاں جس کا کوئی صلہ نہیں

 

جو بھی ہے مانگتا مجھے اس کی ہے سب خبر اسے

ہاتھ اٹھے ہوئے تو ہیں لب پہ کوئی دعا نہیں

 

طائرِ آسماں شکار ہو گیا آشیاں نگر

بیٹھا ہے سمیٹ کو اڑنے کا حوصلہ نہیں

 

یارِ ضرر رساں بھی چپ دشمنِ مہرباں بھی چپ

کب سے ہوں گوش بر صدا کوئی پکارتا نہیں

 

تشؔنہ غم حیات نے جان ہی کھینچ لی مری

جیسے خدانخواستہ میرا کوئی خدا نہیں

رُکنا تو خیالوں میں (XIX)

رُکنا تو خیالوں میں مصروف سفر رہنا

آیا ہی نہیں ہم کو آرام سے گھر رہنا

 

کیا حال بنایا ہے یہ تم نے محبت میں

یہ چاک گریبانی یہ خاک بسر رہنا

 

گر ترکِ تعلق ہی ہوتا ہے تو ہو جائے

اچھا تو نہیں دلِ کو ہر وقت کا ڈر رہنا

 

جس سمت نظر ٹھہرے تم پر ہی نظر ٹھہرے

رہنا مری نظروں میں تاحدّ نظر رہنا

 

اک لفظ محبت کا ہونٹوں پہ چمک اٹھنا

پھر رنگِ حیا بن کر عارض پہ بکھر رہنا

 

بچھڑا جو محبت میں الزام تمہیں دے کو

اب اس کے خیالوں میں تم شام و سحر رہنا

 

رک جانے سے ہوتا ہے کچھ اور سفر مشکل

 کیا دھوپ سے گھبرانا ، کیا زیرِ شجر رہنا

 

وعدوں کو وفا کرنا ، عادت ہی نہیں اسکی

مت راہ میں تو اس کی اے دیدۂ تر رہنا

 

اک ہم سے ہی مت رکھنا بس کوئی  تعلق تم

اور سارے زمانے کے محبوب نظر رہنا

 

میں اپنی دعاؤں کی دیتا ہوں سپر تم کو

تم چاہے جہاں رہنا بے خوف و خطر رہنا

 

برسات کی شاموں کا منظر ہے یہی تشؔنہ

کاجل بھری آنکھوں میں اشکوں کے گُہر رہنا

سفر میں راہ کے آشوب(XX)

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا

ملے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا

 

یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا

کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا

 

یہ انتقام ہے ، دشت بلا سے بادل کا

سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا

 

تمہارا قرب بھی دوری کا استعارہ ہے

کہ جیسے چاند کا تالاب میں اتر جانا

 

عجب ہیں رزم کہہِ زندگی کے یہ انداز

اسی نے وار کیا جس نے سپر جانا

 

ہم اپنے عشق کی اب اور کیا شہادت دیں

ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا   

 

مرئے یقیں کو بڑا بد گمان کر کے گیا

دعائے نیم شبی تیرا بے اثر جانا

 

ہر ایک شاخ کو پہنا گیا نمود کا لباس

سفیرِ موسم گل کا شجر شجر جانا

 

ہمارے دم سے ہی آوارگیِ شب تھی ہمیں

عجیب لگتا ہے اب شام ہی سے گھر جاتا

 

زمانہ بیت گیا ترکِ عشق کو تشؔنہ

مگر گیا نہ ہمارا اِدھر اُدھر جانا

ساری دنیاسے پناہیں(XXI)

ساری دنیا سے پناہیں مانگتا رہ جائے گا

بے یقین مت ہو کہ تو بے آسراہ جائے گا

 

دشت کی اس دھوپ میں جل جائے گا تیرا وجود

تیرے قدموں پر تیرا سایہ پڑا رہ جائے گا

 

کارواں تو خیر کیا دیکھے گا مڑ کر تیری سمت

تو غبارِ کارواں کو دیکھتا رہ جائے گا

 

اک ہجوم عکس ہو گا آئینہ در آئینہ

اپنے چہرے کو بھی تو پہچانتا رہ جائے گا

 

نوکِ مثرگاں ، تارِ جاں پر لاکھ مضرابی کرے

پھر بھی حسن وعشق میں اک فاصلہ رہ جائے گا

 

بھول جائیں گے ساری انجمن آرائیاں

یاد بس اپنے ہی گھر کا راستہ رہ جائے گا

 

وہ تو خوشبو کا ہیولا ہے ، سردوشِ ہوا

تو اسے محسوس ہی کرتا ہا رہ جائے گا

 

ہر قدم پر کام آئے گی انا کی روشنی

آندھیوں کے درمیان بس یہ دیا رہ جائے گا

 

تشؔنہ اب وہ تیری آوارہ شبی کے دن گئے

جانے کس کس کے گھر کا دروازہ کھلا رہ جائے گا

لوحِ قسمت(XII)

لوحِ قسمت کا لکھا ہے عشق میں ہجر و وصال

کب شکایت آپ سے ہے کب گِلہ دنیا سے ہے

 

چھوڑتا ہے جیسے رگ رگ میں کوئی مہتابیاں

موجِ خوں میں سیلِ آتش شعلئہ بادہ سے ہے

 

یوں تو اک اورنگِ آستعجاب ہے دنیا تمام

اعتبارِ عکسِ جاں اک آئینہ سیما سے ہے

 

ورنہ کیا رکھا ہے گلشن میں سوائے خار و خس

سرو کو زیبائی اس کے قامتِ بالا سے ہے

 

جن سے بھی ملتا ہے ہوتا ہے طلبگارِ وفا

یہ دل سادہ نفس نا آشنا دنیا سے ہے

 

عکس اپنا دیکھنا بھی کب گوارا ہے اُسے  

آئینہ بھی غرقِ حیرت حُسنِ بے پروا سے ہے

 

اشک آنکھوں میں سرشکِ غم سے ہیں آئے ہوئے

ریگ ِ ساحل کی نمی جوش ِ کفِ دریا سے ہے

 

خواہشِ صد برگ سے ہے موسم گل پیرہن

رونقِ ہر میکدہ سرمستی تشؔنہ سے ہے

شام ہوتے ہی(XXII)

شام ہوتے ہی یہ کیوں ٹوٹنے لگتا ہے بدن

کیوں ہواؤں سے شرابوں کی مہک آتی ہے

 

گل کھلا دیتا ہے دل میں تیرا اندازِ کلام

تیری باتوں سے گلابوں کی مہک آتی ہے

 

نیند میں اُڑتے ہیں تعبیر کے جگنو تشؔنہ

جاگتی آنکھوں سے خوابوں کی مہک آتی ہے

 

وہ میرے پہلو میں جب بیٹھا تو محسوس ہوا

ساحل کی ہم آغوشی میں جیسے موج مچلتی ہے

 

جوگ لیا ہے سب گلشن نے سوگ میں ہجر بہارا کے

ٹہنی ٹہنی صحنِ چمن میں زرد لباس بدلتی ہے

 

اٹھ جائے گا پر سرِ مخفل پردۂ ظرفِ مے نوشی

دیکھنا یہ پی کو دنیا گرتی ہے کہ سنبھلتی ہے

 

کیسی آنکھیں پھیر لیں ہم سے سارے آہو چشموں نے

وقت بدلتے ہی یہ دنیا کیسا رنگ بدلتی ہے

 

میں ہی وہ مہتاب قدم ہوں کا کہکشاں در کہکشاں

گردشِ ہفت افلاک بھی جس کی ہمراہی میں چلتی ہے

 

تشؔنہ فراقِ یار کی راتیں ہوتی ہیں آہستہ خرام

شمع دیارِ جاں سوزی میں دھیمے دھیمے جلتی ہے

شکست شیشۂ دل(XXIII)

شکستِ شیشئہ دلِ کی صدا ہُوں

میں خود بھی خود کو سُننا چاہتا ہوں

 

نہیں میرے لیے کیا اور کوئی

اُسی کا راستہ کیوں دیکھتا ہوں

 

اُسی ساحل پہ ڈوبوں گا جہاں سے

سمندر کا تماشا کر رہا ہوں

 

چراغِ شعلہ سَر ہوں اور ہَوا میں

سرِ دیوارِ جاں رکھّا ہوا ہوں

 

گُزرنا ہے جسے صحرا سے ہو کر

میں اُس دریا کے دُکھ سے آشنا ہوں

 

دصالِ یار کی خواہش میں اکثر

چراغِ شام سے پہلے جلا ہوں

 

غنودہ ساعَتوں کی شب ہے تشؔنہ

طوافِ عارض و لب کر رہا ہوں

سودا جاں(XXIV)

سوداِ جاں میں نہ یوں در بہ در پھرا مجھ کو

مسافرت مرے گھر کا پتہ بتا مجھ کو

 

مجھے تو اپنے خدوخال تک بھی یاد نہیں

دیارِ خودنگری آئینہ دِکھا مجھ کو

 

میں اپنے ظرف کی حد سے نکل نہ جاؤں کہیں

مری انا مرے قامت سے مت بڑھا مجھ کو

 

چراغ میں بھی تھا اور روشنی بھی رکھتا تھا

بجھا گئی ہے ترے شہر کی ہوا مجھ کو

 

لبوں پہ حرفِ تمنا کا عکس آنے لگا

دکھا رہا تھا کوئی دِل کا آئینہ مجھ کو

 

نہ جانے کتنے اُجالوں کا ہے بھرم مجھ سے

چراغِ خانۂ مفلس ہوں مت بجھا مجھ کو

 

ملا تو قصئہ ہجر و وصال لے بیٹھا

کہاں کہاں کے فسانے سنا گیا مجھ کو

 

لہو میں جیسے وہ جگنو پکڑ کے چھوڑ گیا

کچھ ایسا کھل کے ملا ، جگمگا گیا مجھ کو

 

در خیال پہ دستک کا تھا وہی انداز

ہوائے یاد کا جھونکا رُلا گیا مجھ کو

 

عجیب شخص تھا تشؔنہ حریفِ جاں ہو کر

محبتوں کا سلیقہ سکھا گیا مجھ کو

تھے کبھی قافلہ(XXV)

تھے کبھی قافلۂ سَرو و سمن میں ہم بھی

رقص کرتے ہوئے آئے تھے چمن میں ہم بھی  

 

یہ الگ بات کسی پیڑ سے منسوب نہیں

برگ ِ آوارہ سہی ہیں تو چمن میں ہم بھی

 

ہیں فصیلوں پہ ہمارے بھی لُہو کے چھینٹے

تھے کبھی کشمکشِ دارو رسن میں ہم بھی

 

حکمِ آزادئ گفتار ہمیں بھی دیجئے

اک زباں رکھتے ہیں زندانِ دہن میں ہم بھی

 

شہر نا قدر شناشاں میں ہوئے ہیں بے مول

لعلِ نایاب تھے بازارِ یمن میں ہم بھی

 

ہم نے بھی تیرے خدو خال کے قصے لکھے

معتبر ہو گئے اقلیمِ سخن میں ہم بھی

 

رات بھر لکھتے رہے قوسِ قزح کا مضموں

رنگ بھرتے رہے تصویرَ بدن میں ہم بھی

 

ہم کو بھی عشق کا دعویٰ ہے گُلوں سے تشؔنہ

چُن دیئے جائیں گے دیوارِ چمن میں ہم بھی

ٹھہرتے ہوئے طوفان(XXVI)

ٹھہرتے ہوئے طوفان کا منظر نہیں دیکھتا

دیکھو مجھے گر تم نے سمندر نہیں دیکھا

 

گزرا ہوا لمحہ تھا کہ بہتا ہوا دریا

پھر میری طرف اس نے پلٹ کو نہیں دیکھا

 

نفرت بھی اسی سے ہے ، پرستش بھی اسی کی

اس دل سا کوئی ہم نے تو کافر نہیں دیکھا

 

اک دشت ملا کوچۂ  جاناں سے نکل کر

ہم نے تو کبھی عشق کو بے گھر نہیں دیکھا

 

تھے سنگ تو بے تاب بہت تقش گری کو

ہم نے ہی انہیں آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا

 

خواہش کو یہاں حسبِ ضرورت نہیں پایا

حاصل کو یہاں حسبِ مقدر نہیں دیکھا

 

اک بار جسے دیکھ لیا پیار سے تم نے

بھر اس کا قدم ہم نے زمیں پر نہیں دیکھا

 

کیا ڈوبنے والے پہ گزرتی ہے قیامت

تم نے تو یہ ساحل سے بھی منظر نہیں دیکھا

 

اک عمر سے ہے جو مری وحشت کا ٹھکانا

خشیوں کی طرح تو نے بھی وہ گھر نہیں دیکھا

 

کیا ہو گئے ہم عشق میں ، اس کو بھی خبر ہو

کیوں ہم سے زمانے نے الجھ کر نہیں دیکھا

 

دعویٰ تو بہت اس نے کیا ہم سفری کا

دو گام مگر ساتھ نبھا کر نہیں دیکھا

 

ہر حال میں دیکھا ہے اسے ضبط کا پیکر

تشؔنہ کو کبھی ظرف سے باہر نہیں دیکھا

پہلے دل(XVII)

پہلے دل اختیار میں رکھنا

پھر قدم کوئے یار میں رکھنا

 

چل  رہی ہے ہوائے شب آثار

روشنی کو حصار میں رکھنا

 

لوگ کیوں تیرگی میں ہوں مصلوب

اکِ دیا طاقِ دار میں رکھنا

 

کچھ تو آسان ہو مسافت شب

اک دیا ھگذار میں رکھنا

 

تم کو مرہم نظر بنایا ہے

زخم سارے شمار میں رکھنا

 

کچھ تو خوئے سفر نوازی بھی

شجر سایہ دار میں رکھنا

 

باندھنا روز اک قرار نیا

ہم کو قول و قرار میں رکھنا

 

کر کے تجدیدِ وعدۂ فردا

عمر بھر انتظار میں رکھنا

 

عکس جاں کو سمیٹ کر تشؔنہ

دستِ آئینہ دار میں رکھنا

اس کی گلی سے چند قدم(XXIX)

اس کی گلی سے چند قدم پر اپنا گھر آباد کیا

ہم نے بھی کس آبادی میں خود کو جا برباد کیا

 

پہلے خَس و شاک چُنے پھر جانے دل میں کیا آئی

سارا کارِ آشیاں بندی ِ نذرِ اَبرو باد کیا

 

ترکِ تعلق پر اس سے اتنا تعلق باقی ہے

تارے کئی افلاک پہ ٹوٹے جب بھی اس کو یاد کیا

 

دامن ِ گل کو چاک کیا اور قریہ پھیل گئی

سرگوشی میں خشبو سے یہ صبا نے کیا ارشاد کیا

 

جاں واری وضاں سوزی ہے شیوہ عشق نصیبوں کا

اس کو دعائیں جس نے بھی یہ طرزِ وفا ایجاد کیا

 

تشؔنہ اس کا گھر آنگن ہو سدا بہاروں کا مسکن

یہی دعا ہے شاد رہے وہ جس نے مجھے برباد کیا

 

تاسحر جلتا رہا جو روشنہ کے واسطے

اُس چراغ شعلہ سر کی داستاں ہو جائیے

آسکا نہ ہونٹوں پر (XXX)

آ سکا نہ ہونٹوں پر حرفِ مدّعا اب تک

مرحلہ محبت کا طے نہ ہو سکا اب تک

 

خشبوئے شب رفتہ پیرہن سے اٹھتی ہے

آنکھ سے چھلکتا ہے رات کا نشہ اب تک

 

وہ ہوا کا جھونکا تھا جانے اب کہاں ہو گا

حد ہے اس کے بارے میں میرا سوچنا اب تک

 

ہم سے شب پرستوں پر اب بھی ہے کرم اس کا

بھیجتا ہے دنیا پر روشنی خدا اب تک

 

روز کی مُلاقاتیں ، اور دیر تک باتیں

یاد کر کے روتا ہے دِل وہ سلسلہ اب تک

 

اُس کے نرم قدموں کی چاپ ہے خیالوں میں

دِل کی رہ گزر پر ہیں اُس کے نقشِ پا اب تک

 

ترک ِ عشق کا تم سے غم اسے بھی ہے تشؔنہ

محفلوں میں رہتا ہے وہ اُداس سا اب تک

وہ رُخِ ماہ نیم(XXXI)

وہ رُخِ ماہ نیم ماہ روشنئ دل ونگاہ

کوئی چراغِ شب فروز اس کی مثال کا نہیں

 

ہم سے خزاں خراب کو عیشِ بہار سے غرض

ہم ہیں وہ سعئ رائیگاں جس کا کوئی صلہ نہیں

 

جو بھی ہے مانگنا مجھے اس کی ہے سب خبر اسے

ہاتھ اٹھے ہوئے تو ہیں لب پہ کوئی دعا نہیں

 

طائر ِ آسماں شکار ہو گیا آشیاں نگر

بیٹھا ہے پر سمیٹ کر اڑنے کا حوصلہ نہیں

 

یارِ ضررساں بھی چپ دشمنِ مہرباں بھی چپ

کب سے ہوں گوش بر صدا کوئی پکارتا نہیں

 

تشؔنہ غم حیات نے جان ہی کھینچ لی مری

جیسے خدانخواستہ میرا کوئی خدا نہیں

ٹپکا ہے رگِ جاں

ٹپکا ہے رگِ جاں کا لہو دیدۂ تر سے

جب لوح محبت پہ لکھا ہے ترا پیکر