وہ کہ ہر عہدِ محبت (i)
وہ کہ ہر عہدِ محبت سے مُکرتا جائے
دل وہ ظالم کہ اسی شخص پر مرتا جائے
میرے پہلو میں وہ آیا بھی تو خوشبو کی طرح
میں اسے جتنا سمیٹوں وہ بکھرتا جائے
کھلتے جائیں جو ترے بندِ قبا زلف کے ساتھ
رنگِ پیراہنِ شب اور نکھرتا جائے
مشتہر ہو کے بڑھے اور نکو نائی عشق
دل بھی شائستہ غم ہو سنورتا جائے
عشق کی نرم نگاہی سے حِنا ہوں رخسار
حسن وہ حسن جو دیکھے سے نِکھرتا جائے
کیوں نہ ہم اس کو دل و جان سے چاہیں تشنہؔ
وہ جو اک دشمنِ جاں پیار بھی کرتا جائے
دے مری گمرہی کا صلہ روشنی (ii)
دے مری گمرہی کا صلہ روشنی
روشنی روشنی اے خدا روشنی
روشنی بھیج پغمبروں کے خدا
ہم سے تیرہ شبوں کی سزا روشنی
تجھ سے مل کر یہ محسوس ہونے لگا
روشنی سے ہوتی آشنا روشنی
رات اور بے نشاں منزلوں کا سفر
اے مری لغزش پا دکھا روشنی
آتش گل کھلی ہے چمن در چمن
موسم گل ہے دل میں کھلاروشنی
نورِ صبحِ ازل تجھ سے مانگوں تو کیا
ہو مرے فکر و فن کو عطا روشنی
رات قسمت سے تشنہ نے و پی کرلیں
جام مہتاب تھا میکده روشنی
جہان ہست میں گم ہو گیا ہوں لا کی طرح (iii)
جہان ہست میں گم ہو گیا ہوں لا کی طرح
مرے وجود کا عالم ہے مادرا کی طرح
کیا گیا ہے مجھے لوح کائنات پر نقش
میں لفظ لفظ میں ہوں حرف بے نوا کی طرح
ملے مجھے بھی تو آخر ساعتوں کی لحد
میں دوش وقت پر ہوں لاشتہ صدا کی طرح
مری فضاؤں میں قدموں کی چاپ ہی گونجے
سکوت ذات ہے پھیلا ہوا خلا کی طرح
کسی کی آہ سے پیچھا نہ اشک ہی سے بہا
میں عرش ذات پہ بیٹھا رہا خدا کی طرح
نہ دور جام مرے نام ہے نہ عارض ولب
میں بزم زلمیت میں ہوں دست نارسا کی طرح
مجھی سے تم کو ملے گا سراغ منزل شوق
ہوا ہوں ثبت میں راہوں پر نقش پا کی طرح
مرے لئے بھی درمستجاب کھل جائے
قبول درد میں ہوں اندیشئہ دعا کی طرح
تمام جبر ہے تشنہ یہ قید رسم وجود
گزر رہے ہیں شب و روز اک سزا کی طرح
جہان ہست میں گم ہو گیا ہوں لا کی طرح (iv)
جہان ہست میں گم ہو گیا ہوں لا کی طرح
رقص کرتے ہوے آئے تھے چمن میں ہم بھی
یہ الگ بات کسی پیٹر سے منسوب نہیں
برگ آوارہ سہی ہیں تو چمن میں ہم بھی
میں فصیلوں پر ہمارے بھی لہو کے چھینٹے
تھے کبھی کشمکش دار و رسن میں ہم بھی
حکم آزادی گفتار ہمیں بھی دیجئے
اک زباں رکھتے ہیں زندان دین میں ہم بھی
شہرِ ناقدر شناسان میں ہوئے ہیں بے مول
لعلِ نایاب تھے بازارِ یمن میں ہم بھی
ہم نے بھی تیرے خد و خال کے تھے لکھے
معتبہ ہو گئے اقلیم سخن میں ہم بھی
رات بھر لکھتے رہے قوس قزح کا مضموں
رنگ بھرتے رہے تصویر بدن میں ہم بھی
ہم کو بھی عشق کا دعویٰ ہے گلوں سے تشنہ
چُن دیئے جائیں گے دیوار چین میں ہم بھی
اب ایسی بزم میں کیسے کھلے زباں لوگو (v)
اب ایسی بزم میں کیسے کھلے زباں لوگو
نظر کو اذنِ نظارہ نہیں جہاں لوگو
قلم کیا مرے ہاتھوں کو شب پرستوں نے
میں لکھ رہا تھا چراغوں کی داستاں لوگو
وہ تیرگی ہے کہ بجھنے لگی ہے بنیائی
چراغ اول شب ہے دھواں دھواں لوگو
میں بات کرتا رہا خوشبوؤں کےلہجے میں
کوئی سمجھ نہ سکا پیار کی زباں لوگو
جلوس تیرگی شب ادھر سے گزرے گا
سجاد اپنے دریچوں میں کہکشاں لوگو
تمام شہر میں جب گفتگو کا موسم ہے
حصار جبر میں ہے کیوں مری زباں لوگو
ہر تماشے میں تواحسن تماشا دیکھوں (vi)
ایک کہانی سنو
وہ جو اوراق تاریخ پر ثبت ہے وہ کہانی سنو
ایک تھا بادشاہ ر(ے ہمارا تمہارا خدا بادشاہ)
روم میں جس کے جبروت کا غلغلہ
شهر در شهر تھا
جس کی ہیبت سے لرزاں تھے کوہ و دمن
روبردجس کے سجدے میں تھا اہرن
اس نے سوچا کہ جشن چراغاں منے
اک نئی طرز کا اک نئی شان سے
اور پھر اس نے جشن چراغاں کیا
شهر خسته تناں نذر آتش ہوا
شہر کا چپہ چپہ سلگنے لگا
شہر جلنے لگا
بادشہ اپنے اونچے محل کے دریچے میں بیٹھا ہوا
محو نظارہ جن آتش رہا
ساز بجتے رہے
قہقے آدمیت کی چیخیں دباتے رہے
تیز ہوتی گئی اور آواز نے
شهر جلتا رہا
اور پھر اس طرح
شہر جلنے کی اک رسم سی پڑگئی
ہیروشیما جبلا ناگا ساکی بلا
ارض مقدس کے محراب و منبر جلے
اورتیگاؤں پر کتنے نیپام بم
آگ کا رزق تقسیم کرتے رہے
شہر بیروت میں آگ بوئی گئی
نذر آتش ہوئے جانے کتنے نگر
شہر جلتے رہے
آگ کا کھیل ہے آج بھی ایک معصوم سا مشغلہ
اےمری نسل تو آگ کے کھیل کاجشن آخر منا
کل کی معصوم نسلوں کے شہروں کو تو
آگ کی شعلہ سامانیوں سے بچا
ہوگئی پھول سے جُدا خوشبو (vii)
ہوگئی پھول سے جُدا خوشبو
چند لمحوں کی تھی ہوا خوشبو
رات کو خواب کے جھروکوں سے
جھانکتی ہے اک آشنا خوشبو
چھیڑ پھر کوئی دلنشیں نغمہ
اپنی آواز کی نا خوشبو
ٹوٹتا جا رہا ہے نشہ شب
اپنے انفاس کی پلا خوشبو
زلف کے ساتھ کُھل رہی ہے قبا
اب منائے گی رتجگا خوشبو
میرے نزدیک سے گزرتے ہوئے
کہہ گئی اپنا مدعا خوشبو
پھول کی ہو سکی نہ عمر دراز
مانگتی رہ گئی دعا خوشبو
مدَھ بھرے نین سے کوئی تشنہؔ
آج مجھ کو پلا گیا خوشبو
ہوگئی پھول سے جدا خوشبو (viii)
ہوگئی پھول سے جدا خوشبو
اترے گی اب نہ کوئی کتاب آسمان سے
پہنا ہے جب سے میں نے یہ شیشے کا پیرہن
ڈرنے لگا ہوں راہ کی مہر اک چٹان سے
دشت حیات میں وہ کڑی دھوپ تھی کہ بس
چنتا رہا میں پیاس کے کانٹے زبان سے
کم ظرف ہیں یہ گہرے سمندر کی وسعتیں
بدلا ہے کب ہواؤں کا رخ بادبان سے
تشکیک سے ملا ہے مجھے درس آگہی
مجھ کو یقینِ ذات ہوا ہے گمان سے
سونے کا تھال سر پہ اٹھاتے ہوئے تھی شام
کندن لٹا رہا تھا کوئی آسمان سے
تاریکیوں پر ضرب لگاتے ہوئے چلو
نکلے گا ایک چاند بھی راتوں کی کان سے
انصاف تولتے رہو میزان عدل پر
جانا تھا جس کو وہ تو گیا اپنی جان سے
کیا کیا نہ تیر آئے ہیں یاروں کے اس طرف
ڈرنے لگا ہوں اپنی غزل کی اٹھان سے
تشنہ بسائیے دل خانہ خراب کو
ویرانیاں بھی ڈرتی ہیں خالی مکان سے
میری ہر ایک بات سنو گیان دھیان سے (ix)
میری ہر ایک بات سنو گیان دھیان سے
یہ شہر فن بھی اب ارض ہنر نہیں
کہاں میں گم ہوا ہوں کچھ خبر نہیں
غبار آگہی سک ہم سفر نئیں
مری وارفتگی پر ہنسنے والو
میں کچھ اتنا بھی خود سے بے خبر نہیں
سکوں کے واسطے گھر چاہتا ہوں
سکونت کے لئے دیوار و در نہیں
لگا ہے دل کو دھڑکا رہزنی کا
کہاں لٹ جائے رخت جہاں خبریں
میں ہوں اس دشت کا تنہا مسافر
جہاں سورج تو ہے لیکن شجر نہیں
ہے اب بھی دوست سارا شہر تشنہ
کہیں وہ مہرباں صورت مگر نہیں
کوئی صاحب نظر نئیں دیدہ درنئیں (x)
کوئی صاحب نظر نئیں دیدہ درنئیں
شام ہوتی تو ہم بھی گھر کو جاتے ہیں
بجھتے ہیں آوارہ پتوں کے گھنگرو
سرد ہوا کے جھونکے دھیان بٹاتے ہیں
دور افق میں قتل ہوا ہے سورج کا
لاش اٹھانے چاند ستارے آتے ہیں
نیند کی منزل کوسوں دور ہے آنکھوں سے
راہوں میں سب خواب بکھرتے جاتے ہیں
بھیگ چلی ہے رات یہاں کون آئے گا
ہر آہٹ پر کیوں ہم چونک سے جاتے ہیں
شام سے ہی دل کو دھڑکا لگ جاتا ہے
خوابوں کے اندیشے نیند اڑاتے ہیں
سوچ کے تنہائی میں تشنہ ہنستا ہوں
کیسے کیسے لوگ مجھے سمجھاتے ہیں
جنگل سے چرواہے لوٹ کے آتے ہیں (xi)
جنگل سے چرواہے لوٹ کے آتے ہیں
شام ہوتی تو ہم بھی گھر کو جاتے ہیں
بجھتے ہیں آوارہ پتوں کے گھنگرو
سرد ہوا کے جھونکے دھیان بٹاتے ہیں
دور افق میں قتل ہوا ہے سورج کا
لاش اٹھانے چاند ستارے آتے ہیں
نیند کی منزل کوسوں دور ہے آنکھوں سے
راہوں میں سب خواب بکھرتے جاتے ہیں
بھیگ چلی ہے رات یہاں کون آئے گا
ہر آہٹ پر کیوں ہم چونک سے جاتے ہیں
شام سے ہی دل کو دھڑکا لگ جاتا ہے
خوابوں کے اندیشے نیند اڑاتے ہیں
سوچ کے تنہائی میں تشنہ ہنستا ہوں
کیسے کیسے لوگ مجھے سمجھاتے ہیں
رہ کر میں سمندر میں سمندر سے جدا ہوں (xii)
رہ کر میں سمندر میں سمندر سے جدا ہوں
قطرہ ہوں مگر ظرف میں دریا سے بڑا ہوں
میں ارض و سما میرے ہی بکھرے ہوئےٹکڑے
آئینہ ہوں اور دشت مشیت سے گرا ہوں
پھر سے ڈراؤ نہ مجھے سنگ نژادو
شیشے کا بدن لے کے چٹانوں پر کھڑا ہوں
اکثر یہ ہوا ہے کہ خیالوں کے افق میں
میں شام کے سورج کی طرح ڈوب گیا ہوں
کھل جاؤں گا اک عقدۂ آساں کی طرح میں
اےپیرہن زیست ترا بندِ قبا ہوں
دم لینے کی مہلت مجھے اے باوِ سفر دے
پتہّ ہوں ابھی شاخ کی باہوں سے گرا ہوں
زندہ ہوں کہ جینے کا مجھے حکم ملا ہے
ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہوں
آیا نہ میسر جنہیں پیراہن تحریر
ان لفظوں کی حسرت ہوں تمنا ہوں دعا ہوں
تشتہ مری منزل کا پتہ ہے نہ ٹھکانہ
میں موج دریا ہوں کہ صحرا کی ہوا ہوں
چلا تھا میں تو شریک سفر نہ تھا کوئی (xiii)
چلا تھا میں تو شریک سفر نہ تھا کوئی
لہولہان سرره گذر نہ تھا کوئی
کسی اسیر میں دیکھی نہ جرات پرواز
کھلی فضائیں تھیں بے بال و پر نہ تھا کوئی
ملا نہ شہر ہنر میں بھی کوئی اہل ہنر
تھی میرے ہاتھ میں دستار سر نہ تھا کوئی
نشان ِجادۂمنزل کی جستجو تھی مجھے
تھے راہ پر تو سبھی ہم سفر نہ تھا کوئی
وہ زندگی تقی خدایا کہ دشت بے سایہ
غموں کی دھوپ کڑی تھی شجر نہ تھا کوئی
اس انجمن میں سمجھی سرفروش تھے تشنہ
پڑا جو وقت تو پھر دار پر نہ تھا کوئی
میں شوقِ رنگ رنگ ہوں خیال کی امنگ ہوں (xiv)
میں شوقِ رنگ رنگ ہوں خیال کی امنگ ہوں
میں صبح کا پیام ہوں میں شام کی ترنگ ہوں
سپاه خیر و شر میں صف بہ صف مرے وجود میں
میں رزم گاہ زندگی میں کربلا کی جنگ ہوں
برہنگی بھی چھپ گئی نقوش بھیابھر گئے
میں زندگی کے جسم کی عجب قباۓے تنگ ہوں
بساط روز و شب پہ لگ رہی میں روز بازیان
میں جیت کے بھی خوش نہیں میں ہار کے بھی دنگ ہیں
نہ چپ کے گی قامت خیال کی برہنگی
یہ زحمت لباس کیوں میں زندگی کا تنگ
ہیں رشتئہ انا کی بیٹریاں ہمارے پاؤں میں
چراغ شعلہ سر ہے تو میں پر جلاپتنگ ہوں
دل و نظرشرر فشاں ہوئے ہر ایک چوٹ پر
تو ضرب تیشئہ ستم ہے میں فغانِ سنگ ہوں
کہیں تو چھاؤں زلف کی کہیں تو سیج نرم سی
میں نیند کا ہوں رتجگا میں خوابِ شوخ رنگ ہوں
کمال دلنوازیاں کجمال دوست داریاں
کبھی وہ پھول پھول ہے کبھی میں سنگ سنگ ہوں
نفس نفس مری مہنگ نظر نظر مری طلب
دہک اٹھے جو عارضوں پہ دل کی وہ امنگ ہوں
عرصۂ ہستی سے ہم ناکامیاں چنتے رہے (xv)
عرصۂ ہستی سے ہم ناکامیاں چنتے رہے
روشنی بوتے رہے تارکیسیاں چنتے رہے
لوگ موتی لائے گہرے پانیوں کی گود سے
اور ہم ساحل پہ بیٹے سیپیاں چنتے رہے
زندگی بھر مصلحت بینی رہا اپنا مزاج
عمر بر اندیشئہ سود و زیاں چنتے رہے
اپنے عکسِ ذات کو کرتے رہے شیرازہ بند
آئینہ خانوں سے ہم پر چھائیاں چنتے رہے
سرپھرے دریاؤں کی موجوں پہ ڈالا ہم نے ہاتھ
قلزم ہستی سے ہم طغیانیاں چنتے رہے
ہم تھے اور تنہائی کا دریائے نا پیدا کنار
تیری یادوں کے بھنور سے ہچکیاں چنتے رہے
کر دیا اہل ہوس نے دامن گل تار تار
اور ہم ملبوس گل کی دھجیاں چنُتے رہے
ریگِ صحرا بھی دھوپ بھی ہم تھے (xvi)
ریگِ صحرا بھی دھوپ بھی ہم تھے
ایک دنیا سراب کی ہم تھے
جو کھنچی تھی افق کے ماتھے پر
وہ سنہری لکیر بھی ہم تھے
چاک دامان شب کیا جس نے
سر پھری سی وہ روشنی ہم تھے
اک تماشہ تھے ہم سر بازار
بزم خوباں کی دکشی ہم تھے
جو ہواؤں کے طاق میں بھی جلے
ان پراغوں کی روشنی ہم تھے
چاک پیراہن حیات تھے ہم
اپنا رقص برہنگی ہم تھے
تھا بہاروں میں رنگ و بوہم سے
شہر گل کی بار بھی ہم تھے
موجئہ زندگی کا شور تھے ہم
دشت ہستی کی خامشی ہم تھے
تھا ہمیں سے وہ جشن بزیم حیات
قریئہ جاں کی روشنی ہم تھے
تشنہ اس دور مے پرستی میں
اپنا پندارِ تشنگی ہم تھے
تو قلزم تھا میں دریا تھا (xvii)
تو قلزم تھا میں دریا تھا
مجھ کو تجھ سے ہی ملنا تھا
میں نے تیرا پاند سا مکھڑا
اپنی نظروں سے چوما تھا
اس انبوه سرو قدال میں
تو ہی تو سب سے اونچا تھا
میرے پیار کا پہلا جملہ
تیرے عارض ہو چکا تھا
تو نے نظریں نیچی کر کے
پیار کا جب اترار کیا تھا
تیری پلکیں بھیگ پلی تھیں
تیرا آنچل ڈھلک گیا تھا
تو میری باہوں میں آکر
پھول کی صُورت کھل اٹھا تھا
میری پلکوں کے گوشوں پر
تیرے عارض کا عنازہ تھا
میرے جسم کی ہر ٹہنی میں
میرے سانسوں کا جھونکا تھا
تیری زلفوں کے پیچوں میں
میری پلکوں کا شانہ تھا
ترے لبوں کی بنیادوں پر
میرے ہونٹوں کا ملبہ تھا
سُرخ ہو میں تھیں تیری آنکھیں
دیر تلک میں بھی جاگا تھا
برسوں تیرے جسم کا چندن
میرے پہلو میں سلگا تھا
میں نے اپنے پیار کا سورج
تیرے ماتھے پر ٹا نکا تھا
اپنی دعائے نیم شبی میں
میں نے تجھ کو ہی مانگا تھا
جان و دل سے ٹوٹ کے میں نے
ایک تجھی کو تو چاہا تھا
میرے سانسوں کی خوشبو سے
میرا تن من مہک اٹھا تھا
تشنہؔ نے تیری چاہت کا
شیش محل تعمیر کیا تھا
شہر میں قتلِ عام ہوا تھا (xviii)
شہر میں قتلِ عام ہوا تھا
میں بھی شہید دستِ جفا تھا
اےبرسات بنانے والے
میں بھی برسوں کا پیاسا تھا
باغ میں پھول کھلانے والے
میں نے بھی ہنسنا چاہا تھا
سیپ کو موتی بخشنے والے
میں بھی بارش کا قطرہ تھا
اے میٹھی نیندوں کے خالق
دیر تلک میں کیوں جاگا تھا
سچے خواب دکھانے والے
میرا سپنا کیوں جھوٹا تھا
میرے جذبوں کے صحرا میں
دھوپ نے کیوں ڈیرا ڈالا تھا
میری دنیاسے آخر کیوں
سورج نے منہ پھیر لیا تھا
میری رات کے نیل گگن کا
چاند بھی رستہ بھول گیا تھا
سب کو خوشیاں بانٹنے والے
مجھ کو ہی کیوں غنم بخشا تھا
دنیا کا دل رکھنے والے
تشنہؔ سے کیوں روٹھ گیا تھا
جب تو مجھ سے بچھڑ رہا تھا (xix)
جب تو مجھ سے بچھڑ رہا تھا
پھوٹ پھوٹ کے دل رویا تھا
تیری پلکوں پہ شبنم تھی
میری آنکھوں میں دریا تھا
تیری زلفوں میں انشاں تھی
میری راہ میں اندھیرا تھا
دل پر قیامت ٹوٹ رہی تھی
صبر کا دامن چھوٹ گیا تھا
پیار سے میرا ہاتھ دباکر
تو نے سینے پر رکھا تھا
جلتے ہونٹوں سے پھر تو نے
میرے ہاتھ کو چوم لیا تھا
میرے ہاتھ کی پشت پہ سجنی
تیرے ہونٹوں کا نقشہ تھا
پھر میں تجھ سے رخصت ہو کر
جیون رستوں میں تنها تھا
انجانی سی ہر منزل تھی
سونا سونا ہر رستہ تھا
آج وہ سب کچھ یوں لگتا ہے
جیسے اک سپنا دیکھا تھا
قرب بھی سپنا پیار بھی سپنا
سپنا بھی کیسا جھوٹا تھا
تیرے جسم کے ساحل پربھی
تشنہ قرنوں کا پیاسا تھا
ساحل پر کہرام مچا تھا (xx)
ساحل پر کہرام مچا تھا
دریا رستہ بدل رہا تھا
وقت کے ہاتھوں سےپچھم میں
سونے کا اک تھال گراتھا
یہ کس کو آغوش میں لے کر
شام کا چہرہ دمک رہا تھا
پھولوں کے نازک سینے میں
کرنوں کا نیزہ اترا تھا
شبنم کے جگمگ شیشے پر
سورج نے پتھر مارا تا
اے دل اس کی اتنی چاہت
تو نے اس میں کیا دیکھا تھا
وہ کیسا احساس تھا یا رب
جیسے کچھ ہو نے والا تھا
تیز بہت ملتی درد کی آندھی
پتہّ پتہّ لرز رہا تھا
دل کی طنابیں ٹوٹ رہی تھیں
خیمۂ جاں گرنے والا تھا
دل کے شیش محل میں تشنئہؔ
کون یہ پتھر پھینک رہا تھا
جس رات گلابوں سے تری سیج سجی تھی
اس رات درختوں پر بہت اوس پڑی تھی
کوئی دیوار تھی نہ سایا تھا (xxi)
کوئی دیوار تھی نہ سایا تھا
زندگی تھی کہ ایک صحرا تھا
وہ ملا دشتِ خواب میں اکثر
اپنے شعروں میں جس کو لکھا تھا
جان بزم حیات تیرے بغیر
میں ہر اک انجمن میں تنہا تھا
پھر مجھے موت بھی نہیں آتی
کیوں تجھے زندگی بنا یا تھا
آئینے سے بھلا کہاں نسبت
دل بڑی خامشی سے ٹوٹا تھا
میں تھا پت جھڑ کا برگِ آوارہ
تو خزاں کی ہوا کا جھونکا تھا
میرے شانوں سے تو نے آخرِ شب
اپنی زلفوں کو جب سمیٹا تھا
اک قیامت سی دل میں جاگی تھی
ایک محشرسامجھ پہ گزرا تھا
چاند میں بھی تری شباہت تھی
پھول تیری مہک سے مہکا تھا
اب سر ِبزم ہے وہ حشر بدوش
وہ جو تنہائیوں میں کھلتا تھا
مجھ کو دیجے سزائےجرم صدا
میں نے قفل ِسکوت توڑا تھا
میں نے ہی تیرگی کے خیموں پر
روشنیوں کا تیر پھینکا تھا
تلاش (xxii)
میں کھو گیا ہوں
حیات کی تنگ و تار گلیوں میں کھو گیا ہوں
میں زندگی کے اجاڑ ویران راستوں پر
نہ جانے کب سے بھٹک رہا ہوں
میں اپنی گمراہیوں پر خوش تھا
وجود کے دائرے میں سمٹا تو میں نے سوچا
کہ میں نے منزل کو پا لیا ہے
مگر یہ میرا فریب ہی تھا
کہ میرا اپنا وجود اپنے ہی دائروں کے حصار میں قید
کھلی فضا کی تلاش میں تھا
میں وقت کے در پر دستکیں دے کے تھک چکا ہوں
حیات کی تنگ و تار گلیوں میں کھو گیا ہوں
کوئی تو مجھ کو تلاش کرلے
سائرن (xxiii)
خبیث آواز سائرن کی
فضا میں گونجی
بموں کی چیخیں
گھناؤنی روشنی کے لپکے
شفیق تاریکیوں پر نفرت کے تازیانے
گھٹے ہوئے دم رکی ہوئی سانس بستیوں کی
فسونِ دہشت سے شہر کا شہر بت بنا تھا
شفیق آواز سائرن کی
فضا میں گونجی
گھٹے ہوئے دم رُ کی ہوئی سانس کلبلائی
چراغ جاگے تو میں نے دیکھا
ہزاروں انسان سو چکے تھے
گلاب سے نرم نرم عائیش جھلس چکے تھے
ہزاروں مانگیں اجڑی تھیں
سہاگیں اپنی گرم بانہوں میں سردالاشیں سمیٹ کر
خون رو رہی تھیں
منہ لگائے
حیات کا زرق لے رہے تھے
جہاں فلک بوس بلڈنگیں تھیں
وہاں کھنڈر مسکرا رہے تھے ۔
جنون ودحشت کا دیو تا اپنی کامرانی پر رقص کر تا
زمیں کو دوزخ بنارہا تھا
شفیق آوا ز سائرن کی
فضا میں تحلیل ہو رہی تخفی
متاع ِجاں سرِ بازارلٹوانے کو جی چاہا
اسی بے مہر کے کوچے میں بچھانے کو جی چاہا
شکستِ دل کی خاموشی گراں کچھ اس قدر گذری
دکان شیشہ گر پہ سنگ برسانے کو جی چاہا
کہیں کا بھی نہ رکھاتندئی احساس نے مجھ کو
مرا ہر پھول کے ہمراہ مرجھانے کو جی چاہا
یہ اندوہِ فروغِ آ گھی بھی اک قیامت ہے
ہزاروں بار اس جینے سے مرجانے کو جی چاہا
ہجومِ یاس نے جب اشک بھی چھوڑے نہ آنکھوں میں
لبِ گل پر ہنسی بن کر بکھر جانے کو جی چاہا
فضا ئیں چپ ہراساں شہر گلیاں دم بخود تشنہؔ
مراسنگ صدا ایسے میں برسانے کو جی چاہا
تجھ کو اپنا سمجھا تھا (xxiv)
تجھ کو اپنا سمجھا تھا
میں کیسا دیوانہ تھا
میں تھا ریت کناروں کی
تو اک چڑھتا دریا تھا
صحراؤں کی پیاس تھا میں
تو ساون کی بُرکھا تھا
دشت بلا کی دھوپ تھا میں
تونظروں کا دھوکا تھا
میں تھا برگِ آواره
تو پُروا کا جھونکا تھا
تجھ کو خواب میں دیکھ کے میں
گہری نیند سے چونکا تھا
میں نے تجھ کو یوں دیکھا
جیسے تو اک سپنا تھا
میں نے اپنی غزلوں میں
تیرا روپ سجایا تھا
رحلِ محبت رکھ کر
پہروں تجھ کو پڑھتا تھا
لفظوں کے پیراہن سے
میں نے تجھ کو ڈھانپ تھا
میری فکر کی مسند پر
اک تو ہی تو بیٹھا تھا
میں خود سے بھی روٹھ گیا
تھجے منا نے آیا تھا
دنیا چھاؤں میں بیٹھی تھی
میں نے پیڑ لگایا تھا
میرے جسم کے صحرا پر
تیرے پیار کا سایا تھا
تری زلف کی چھاؤں میں
تشنہؔ چین سے سویا تھا
ہم کو بنا دیا ہے زمانے نے خود پسند (xxv)
ہم کو بنا دیا ہے زمانے نے خود پسند
کرتے ہیں اپنے آپ میں تجھ کو تلاش ہم
کاندھا نہ دے سکا ہمیں یہ شہر آشنا
تنہا اٹھائے پھرتے رہے اپنی لاش ہم
لے جائے دیکھیے کہاں یہ صرصر حیات
کس دشت میں نہ جانے رکھیں بود دو باش ہم
شیشے کا جسم اوڑھ کے نکلے تھے شہرمیں
اب کیا گلا کر میں کہ ہوئے پاش پاش ہم
ہے کاروبار زیست میں ہم سے ہماہمی
اے دوست نبض دقت کاہیں ارتعاش ہم
جو ہو سکی نہ وقت کے مرہم سے مندل
ہیں چہرۂ حیات کی ایسی خراش ہم
تشنہ ؔہمارے نام پہ لگتی ہیں بازیاں
دست قمار باز میں ہیں گو یا تاش ہم
قامت سے اپنے کوئی تو اونچا دکھائی دے (xxvi)
قامت سے اپنے کوئی تو اونچا دکھائی دے
ہم دیکھتے رہے کوئی ہم سا دکھائی دے
سورج کے ڈوبنے پر یہ نقشہ دکھائی دے
پیڑوں سے بڑھ کے پیڑ کا سایا دکھائی دے
پتھر یہ کس نے پھینکا ہے یادوں کی جھیل میں
دھندلا سا ایک عکس لرزتا دکھائی دے
دھارا ہے خوامشوں نے فریب نظر کا روپ
ریگ ِرواں بھی پیاس میں دنیا دکھائی
دیکھی ہے ہم نے وسعتِ صحرائے زندگی
ذرہ بھی اپنے آپ میں دنیا دکھائی دے
ماه تمام میں ہو ترا پَر تو ِجمال
اک روز تو یہ چاند بھی تجھ سا دکھائی دے
تشؔنہ ہمیں یہ کس نے خود آرا بنا دیا
ہر آئینے میں اپنا ہی جلوہ دکھائی دے
چومےہے نظر وہ لب و رخسار ابھی تک (xxvii)
چومےہے نظر وہ لب و رخسار ابھی تک
آنکھوں میں ہے اک لمحئہ دیدار ابھی تک
چمکی تھی کبھی برق نظر خیمئہ جاں پر
لرزاں ہے مگر روح کی دیوار ابھی تک
بجتی ہیں مرے کان میں اب تک تری سانسیں
سنتا ہوں ترے قرب کی جھنکار ابھی تک
پھولوں سے کبھی ایک تعلق تھا ہمار
ا دامن سے الجھتا ہے سر ِخار ابھی تک
خون ِگل و لالہ سے ہو گل رنگ ہوئی تھی
ہے دستِ صبا میں وہی تلوار ابھی تک
او جھل ہے نگاہوں سے وہ اک ساز مجسّم
اک موجِ صدا ہے پسِ دیوار ابھی تک
سورج تو سوا نیزہ پہ آ پہنچا ہے تشنؔہ
دیکھے نہ مگر صبح کے آثار ابھی تک
تابش ِخونِ شهیدانِ وفا رہنے دو (xxviii)
تابش ِخونِ شهیدانِ وفا رہنے دو
میرے زخموں پر کفِ دستِ حنا رہنے دو
زلف سے شعلئہ عارض کو ڈھکا رہنے دو
اس دیکھتے ہوئے سورج پر گھٹا رہنے دو
بجھ گئی شمعِ حرم گل ہیں کلیسا کے چراغ
در ِمیخانہ تو اس وقت کُھلا رہنے دو
نہ تمہیں عشق سے نسبت نہ ہمیں غم سے فرار
روز کا اب یہ نیا عہد وفا رہنے دو
ہو چکے شہر نگاراں کے دریچے ویراں
کوئی پیغام نہ لائے گی صبا رہنے
کوچۂ عشق میں بے نام و نشاں ہے تشنؔہ
اس کو نا واقفِ آداب وفا رہنے دو
داقف مسلک رندانہ تو بن لینے دو (xxix)
داقف مسلک رندانہ تو بن لینے دو
ہم کو خاکِ درِمیخانہ تو بن لینے دو
حامل مے نہیں ہو سکتا ابھی ظرفِ سفال
کوزۂ خام کو پیمانہ تو بن لینے دو
کسب بھلا ہم نے پرستش سے کیا ہے انکار
اپنی محفل کو صنم خانہ تو بن لینے دو
ہم رکھیں گے غم ِجاناں کو دل جہاں سےعزیز
غمِ ایاّ م سے بیگانہ تو بن لینے دو
دیکھنا ٹپکے گا ہر حلقئہ زنجبہ سے خوں
نو گرفتا رکو دیوانہ تو بن لینے دو
حرفِ اظہار ہوں میں دل میں اتر حباؤں گا (XXX)
حرفِ اظہار ہوں میں دل میں اتر حباؤں گا
صورتِ رنگِ حیا رخ پہ بکھرجاؤں گا
تو مجھے ڈھونڈتا رہ جائے گا منزل منزل
میں تو جھونکا ہوں دبے پاؤں گذر جاؤں گا
ڈوب جاؤں گا میں لمحوں کےسمندر میں تو کیا
قلزمِ وقت کو پایاب تو کر جاؤں گا
یہ مسافت کے کڑے کوس یہ راہوں کا عذاب
دشت بے سایہ کے آشوب سے مر جاؤں گا
لے اڑے گا مجھے پھر کوئی ہوا کا جھونکا
موجۂ ریگِ رواں بن گے بکھر جاؤں گا
اے سکوتِ شب ِغم کوئی صدا ہلکی سی
میں تو سناٹوں کی اس گونج سے مرجاؤں گا
کل کے خوابوں کی ہیں کرچیں مری آنکھوں میں بھی
نیند کے زخم بھریں گے تو میں گھر جاؤں گا
شب کی آنکھوں سے ہوں ٹپکا ہوا آنسوتشنۂؔ
میں کسی پھول سے عارض پہ ٹھر جاؤں گا
اٹھی نہ کوئی قیامت خرام ِناز کے بعد
کِھلی نہ کوئی کلی غنچۂہ وہن کی طرح
تراکہا تو بس شوق مان لوں واعظ
بہشت گر نہ ہوئی اس کی انجمن کی طرح
انا کے زخم گر میباں کے تار تار میں ہوں (xxxi)
انا کے زخم گر میباں کے تار تار میں ہوں
میں بزم گل میں تھا اب کنج بے بہار میں ہوں
یہاں تو جو بھی ملا اجنبی ملا مجھ کو
یہ شہر کون سا ہے میں یہ کس دیار میں ہوں
بجھا کے مجھ کو گزر جائے گا کوئی جھونکا
چراغ رہ ہوں ہواؤں کے انتظار میں ہوں
کبھی ادھر سے گزراے نگار ِشہرِ جمال
تجھے خبر بھی ہے میں تیری رہگذار میں ہوں
مری تلاش ہے جس کو وہ ڈھونڈ لے مجھ کو
گلوں کے رنگ میں ہوں نکہتِ بہار میں ہوں
دیا ہے طعنہ و اماندگی سبھی نے مجھے
میں آنے والے مسافر کے انتظار میں ہوں
عطا ہوئی تھی مسیحا کو جس کی پیش روی
صلیب اٹھائے ہوئے میں اُسی قطار میں ہوں
خود اپنے جسم کے مرقد میں دفن ہوں تشنہؔ
میں جی رہا ہوں مگر زیست کے مزار میں ہوں
خونِ قتلِ تمنا ّہو گا (xxxii)
خونِ قتلِ تمنا ّہو گا
عشق میں دیکھئے کیا کیا ہو گا
میری اس چاک گریبانی پر
شہر میں ایک تماشا ہو گا
اے مرے خواب کی تعبیر بتا
خواب تو نے بھی تو دیکھا ہو گا
جب کسی نے تری زلفوں میں کبھی
پیار سے پھول سجایا ہو گا
اشک آنکھوں میں بھر آتے ہوں گے
دل میں اک درد اٹھا ہو گا
آگیا ہو گا تجھے میرا خیال
جب ستارہ کوئی ٹوٹا ہو گا
تھا مجھی تک وہ ستم میرے بعد
پھر کوئی دل نہ دکھایا ہو گا
میرا دل توڑ کے تشنہؔ اس کو
پیار پتھّر پہ بھی آیا ہو گا
زمیں پہ تھے جو آسمان کیا ہوئے (xxxiii)
زمیں پہ تھے جو آسمان کیا ہوئے
وہ اپنے سارے مہربان کیا ہوئے
سمندروں میں جن سے ایک جشن تھا
وہ کشتیاں وہ بادبان کیا ہوئے
ہری بھری تھیں جن کے دم سے کھیتیاں
وہ عرق جبیں کسان کیا ہوتے
وہ کیا ہوئیں محبتوں کی بستیاں
مکیں وہ کیا ہوئے مکان کیا ہوئے
وہ جن کے دم سے تھیں لہو میں گردشیں
وہ شاعرانِ خوش بیان کیا ہوئے
کہاں گئیں شکاریوں کی ٹولیاں
بلندیوں کے وہ مچان کیا ہوئے
یہ کس مقام پر حیات آ گئی
یقین وہ کیا ہوئے گمان کیا ہوئے
وہ زندگی کی آن بان کیا ہوئی
وہ نام کیا ہوئے نشان کیا ہوئے
جلا کے آئے تھے جو اپنے بادباں
وہ شیر دل جہازران کیا ہوئے
تراشتے تھے منزلیں میں جو دشت میں
وہ قافلے وہ ساربان کیا ہوئے
پناہ گاہ کے اژدر کوئی نہ دیکھ سکا (xxxiv)
پناہ گاہ کے اژدر کوئی نہ دیکھ سکا
چھپے ہوئے تھے جو خنجر کوئی نہ دیکھ سکا
لہولہان تھا میں اور سب تماشائی
کدھر سے آئے تھے پتھر کوئی نہ دیکھ سکا
نظر لگائے رہے دوسرے کے قامت پر
کسی کو اپنے برابر کوئی نہ دیکھ سکا
ہر ایک شخص تھا اپنی ہوس کا زندانی
حصار ِذات سے با ہر کوئی نہ دیکھ سکا
سبھی نے دیکھا برستے ہوئے گھٹاؤں کو
ہواہے خشک سمندر کوئی نہ دیکھ سکا
سبھی سے داد ملی سرخروئی کی تشنہ ؔ
چلے جو روح پر نشتر کوئی نہ دیکھ سکا
زمانے کی روش سے جو ہٹا ہے (xxxv)
زمانے کی روش سے جو ہٹا ہے
وہی اک شخص سولی پر کھنچا ہے
وہ جس کے ہاتھ میں پتھر ہے
یارو وہی اک شخص میرا اشنا ہے
خفا ہوتے ہیں کیوں احباب ہم سے
ہماری ذات تو اک آئینہ ہے
مجھے بھی اب تمہاری بے رخی پر
محبت کا گماں ہونے لگا ہے
تمہیں بھولے ہوئے بیٹھا تھالیکن
بہت یاد آۓ تم جب دل دُکھا ہے
جگاؤ وارِمہشر کو تشنہ ؔ
سوا نیزہ پہ سورج آگیا ہے
لٹ گیا راہوں میں رخت جاں بہت (xxxvi)
لٹ گیا راہوں میں رخت جاں بہت
ہو گئے ہم بے سر و ساماں بہت
رقص تھا آنکھوں میں ننگی روح کا
تھے لباسوں میں بھی ہم عریاں بہت
کیجئے اب جیب و داماں کا حساب
موسم وحشت کا تھا ارماں بہت
ہم اسیران محبت کے لئے
اک تری آغوش کا زنداں بہت
دوستوں نے آخرش دل رکھ لیا
ہم کو لٹ جانے کا تھا ارماں بہت
تیرے وعدوں کا اسے ہے اعتبار
تشنہ ؔ عالمتاب ہے ناداں بہت
یہ قلزمِ حیات تو پایاب تھا مگر (xxxvii)
یہ قلزمِ حیات تو پایاب تھا مگر
ہر لمحہ میری فکر کو گہرائی دے گیا
پھر اس کے بعد کتنے مناظر نظر میں آئے
بے نور ساعتوں کو وہ بینائی دے گیا
مرہم بدست تھا جو بظاہر وہ آشنا
جانے لگا تو زخم شناسائی دے گیا
کیا غمگسار تھا کہ مرا حال پوچھ کر
کچھ اور دل کو رنج ِشکیبائی دے گیا
وہ محفلوں کی جان تھا رونق شبوں کی تھا
جو شخص مجھ کو تحفہ تنہائی دے گیا
نشاط گرمی بزم خیال دیکھیں گے (xxxviii)
نشاط گرمی بزم خیال دیکھیں گے
دیئے سجا کے ترے خد خال دیکھیں گے
مسافتِ لب و عارض تمام ہے تو سہی
تجھے بھی اسے روش ماہ وسالدیکھیں گے
بہار پر گلُ دوشیزگی ہے وصل کی شب
مال حسن کا حسن مآل دیکھیں گے
بیاضِ حافظ ِشیراز ہے رخ زیبا
درق ورق پر محبت کی فال دیکھیں گے
رزتے ہونٹوں پہ تمہید التجا ہو گی
ھمکتی آنکھوں میں حسنِ سوال دیکھیں گے
نزول آیئہ دوشیزگی کے دن آئے
کتابِ عشق کا حرت کمال دیکھیں گے
بڑا ہے نازتمہیں اپنے آپ پرتشنۂ ؔ
تمہیں بھی ہم سرِ شہر جمال دیکھیں گے
مسافت (xxxix)
غم نہ کر بیت جائے گا یہ سال بھی
تو زمانے کی تپتی ہوئی ریت پر
چلچلاتی ہوئی دھوپ کی آنچ میں
اپنے سانسوں کے پھوٹے ہوئے آبلے
یوں ہی گنتا چلا چل یہ سائتیں
بیت ہی جائیں گی
یہ بیا باں کی جلتی ہوئی دوپہر ی
مسافت کے بے نام شام وسحر
ختم ہو جائیں گے
غم نہ کر بیت جائے گا میر سال بھی
اور برسوں کی صورت (کہ جو وقت کی بے کراں
وسعتوں میں کہیں کھو گئے
نقش پا بھی نہیں اور نشان بھی نہیں)
منزلِ بے نشان کا مسافر ہے تو
یونہی چلتا چلا جا کہ یہ راستے
تیرے قدموں میں سمٹے چلے آئیں گے
روز وشب کے جھلتے ہوئے سلسلے
ٹوٹ ہی جائیں گے
غم نہ کر بیت جائے گا یہ سال بھی
تخلیق (XL)
مہیب رات کی یہ پر سکوت تاریکی
ازل سے قبل کی تاریکیوں سے بھی تاریک
سیب رات کی اس بیکران سیا ہی میں
مرے خیال میں اک روشنی در آئی ہے
میں اپنی فکر کی مسند پر جلوہ آرا ہوں
مرے قلم میں عجب شان کبریائی ہے
ترغیب (XLI)
تیرے دل میں بھی ہے تخلیق کا شوق
آفرینش کا مسلسل اک کرب
میں بھی اک ذوق نمورکھتا ہوں
سینۂ سنگ میں ہو جیسے شور پوشیدہ
سیپ کے بطن میں ہو جیسے گہر پوشیدہ
اسی جذ بہ تخلیق کی تکمیل کر یں
آکہ جن جائیں ہی خواب نمو کی تعمیر
ہم بھی آ رقص کریں رقص شرر ہونے تک
آب نیساں کے کسی قطرۂ آوارہ پر
جو گذرتی ہے گزر جائے گہر ہونے تک
ہم رقص (XLII)
مری جان ناچومرے ساتھ ناچو
کہ تم میری ہم رقص ہو آج کی شب
ا بھی کیا
ابھی رات کے دو بجے ہیں
ا بھی رقص و نغمہ کی محفل جواں ہے
ادھر دیکھوشوہرتمہا را
مسزگولڈ والا سے رومانٹک ہو رہا ہے
تمہارا یہ غصہ بجا تو نہیں ہے
کہ وہ اس کی ہم رقص ہے آج کی شب
اسے حق ہے سرگوشیوں کا
محبت کا نیکنگ کا جلتے ہوئے قرب کا حق ہے اس کو
کہ وہ اس کی ہم رقص ہے آج کی شب
میں شاید بہت پی گیا ہوں بہکنے لگا ہوں
مرے گرد باہوں کے حلقے ذرا تنگ کرلو
نہیں روم میں آج اسٹیپس مرے
مگر اس سے کیا ہے میّسر ہے مجھ کو
تمہارے سنرہے بدن کی تمازت
تماری یہ قربت
مرے جسم میں بجیلیان بھر رہی ہے
بہت خوبصورت بہت شوخ ہو تم
یہ لہجے کی نرمی یہ کھڑی ہوئی سانس کیا کہہ رہی ہے
سمجھتا ہوں میں بھی
کہ تم میری ہم رقص ہو آج کی شب
جنہیں بھلانے میں یارو بڑے زمانے لگے (XLIII)
جنہیں بھلانے میں یارو بڑے زمانے لگے
جو دل دکھا تو وہی لوگ یاد آنے لگے
میں جس گلی سے بھی شہر جمال میں گذرا
کھلِے گلاب منڈیروں پر مسکرانے لگے
دیا رِ فکر میں یادوں کی دیویاں اُتریں
گئے دنوں کے فسانے بڑے سہانے لگے
ستم یہ کم تو نہیں ہے کہ اجنبی بن کر
مرے قریب سے گزرے تو مسکرانے لگے
ہمارے چہرے پر کیا لکھ دیا محبت نے
تمام دوست ہمیں آئینہ دکھانے لگے
بھولے بسرے خواب سہانے یاد آئے (XLIV)
بھولے بسرے خواب سہانے یاد آئے
آج وہ سارے یار پرانے یاد آئے
شہروں کی تہذیب تھی جن کی ہر لغزش
وہ سودائی وہ دیوانے یاد آئے
جھانک کے دیکھا جب بھی دل کے داغوں میں
کیسے کیسے آئینہ خانے یاد آئے
انجا نا اک شخص ملا تھا آج مجھے
سب چہرے جانے پہچانے یاد آئے
یارانے کی دھوپ تھی جن کے چہروں پر
تم سے مل کر وہ بیگا نے یاد آئے
کسی سے ملتے کسی کو جب دیکھا تشنہ ؔ
گئے دنوں کے سب افسانے یاد آئے
کچھ رخت ِسفر بھی ساتھ لے لو (XLV)
کچھ رخت ِسفر بھی ساتھ لے لو
رستے میں ہی رات ہو گئی تو
کیا ہو گئے چاند وہ تمہارے
اے شہر جمال کے دریچو
یہ تو نہیں چا ہتوں کا لہجہ
اک بار تو پیار سے پکارو
کیا ہو گا جو آگ میں نکلی
ہمسائے کا گھر جلانے والو
بے نور اب ہو چلی ہیں صبحیں
کچھ شرم اے روشنی فرد شو
کب تک یہ زمیں پہ سجدہ ریزی
اٹھو اور آسماں کو چھو لو
وہ بھی ۔ رہے کہ سیج پرتھے
غمگین نہ ہولحد کے پھولو
واقف ہے یہ ساری منزلوں سے
تشنہ ؔ کو بھی ساتھ ساتھ رکھو
تیری صورت کا یہ فسوں کب تک (XLVI)
تیری صورت کا یہ فسوں کب تک
آئینہ دیکھتا رہوں کب تک
قریہ قریہ اڑی ہے درد کی دُھول
شہرِ بے مہر میں رہوں کب تک
کر لیا میں نے تار تار بدن
بے لباسی بھی اے جنوں کب تک
ضرب تیشہ، فغانِ سنگ بھی سن
ضبط غم سے میں کام لوں کب تک
روستو بزمِ شب نصیباں میں
روشنی کے لئے بلوں کب تک
بزم میں تیرے تشنہ ؔ
آخرش جام واژگوں کب تک
تم ہوتے یا تم سا ہوتا (XLVII)
تم ہوتے یا تم سا ہوتا
کاش کوئی تو اپنا ہوتا
پیار کا دعوی کرنے والو
میرا درد بٹایا ہوتا
ڈھلتی رات کی تنہائی میں
چُپکے سے تو آیا ہوتا
آخر ِشب زنداں میں کوئی
خوابِ گراں سے چونکا ہوتا
یہ تنهانی یہ سناٹا
زور سے دل ہی دھڑ کا ہوتا
رکتے نہیں روکے سے آنسو
تم نے حال نہ پوچھپا ہوتا
رخصت ہو کر جانے والے
مڑ کر بھی تو دیکھا ہوتا
تم مقتل میں ہی آ جاتے
کوئی تو وعدہ ایفا ہوتا
اپنی نیند کے رنگ محل میں
میرا سپنا دیکھا ہوتا
میں نے جو کچھ بھی سوچا ہے
دیواروں پر لکھا ہوتا
جانے کی جلدی ہی کیا تھی
تم نے تشنہؔ روکا ہوتا
لفظ و معنی میں کوئی ربط تو رکھا ہوتا (XLVIII)
لفظ و معنی میں کوئی ربط تو رکھا ہوتا
جو بھی کچھ تو نے کہا میں نے بھی سمجھا ہوتا
تجھ پہ بھی حشرِ جُدائی کبھی گذرا ہوتا
مِل کے تو بھی تو کسی شخص سے بچھڑا ہوتا
ہیں کہیں نادکِ و شنام کہیں بارشِ سنگ
تو نے اس شہر کو مقتل نہ بنایا ہوتا
زلف و عارض کا تصور لب درخسار کے خواب
بادِ جاناں مجھے دنیا کا بھی رکھا ہوتا
تجھ کو بھی وقت کی نبضوں کا تو ہوتا احساس
میں نے جو سوچا تھا دیواروں پہ لکھا ہوتا
جس سے خورشید کی پلکوں میں نمی آجاتی
عارضِ گل پہ میں شبنم کا وہ قطرہ ہوتا
ان چراغوں کے بجھانے سے رُکے گی نہ سحر
رات دکھنی ہے تو سورج کو بجھایا ہوتا
وقت کے چارہ گر۔۔۔۔ (XLIX)
اپنے زخموں کو ہونے نہ دو مندمل
اپنے چہروں پہ یہ دھول رہنے بھی دو
روح کی ان خراشوں سے رسنے بھی دو تازہ تازہ لہو
انگلیاں گر الجھتی ہیں تار گریباں سے تو کیا ہوا
اپنے جیب و گریباں کی یہ دھجیاں
اپنے سینے یہ یونہی سجائے رکھو
یہ ہیں یا دیں اسی جہدِ ناکام کی
جس نے قالب تو کیا روح کو بھی ڈسا
اور سنگین بوٹوں تلے میری عظمت مراعزم روندا گیا
وقت کے چارہ گر چارہ سازی نہ کر
میرا یہ درد اب لا دوا ہو گیا
روح کا زخم رستا ہے رستا رہے
روح کے زخم کا کوئی مرہم نہیں
موسم بے رنگ (L)
آ گئی پت جھڑ کی رُت
پتیاں بارش کی بوندوں کی طرح
ٹوٹ کر پیڑوں کی باہوں سے گریں
رزقِ زمیں ہونے لگیں
پیڑ نو زائیدہ بچوں کی طرح
بے لباسی میں مگن
آ گئے دوشیزہ فطرت کی عریانی کے دن
کھُل گیا بندِ قبا
دھجیاں بن کے اڑا ملبوس ِ گل
سبز پریاں زرد چارد اوڑھ کر
موسمِ بے رنگ کی آغوش میں سہمی ہوئی
آخری سانسوں کی گنتی کرتے کرتے سو گئیں
دستک (LI)
میری تنہائیوں کےمرقد میں
کس کے قدموں کی چاپ اتری ہے
توڑنے کو سکوتِ شب کا طلسم
کس کے سانسوں کی آہٹیں گونجیں
رات کی اس سیاہ بستی میں
صبحِ بے نام کی کرن لے کر
یہ دبے پاؤں کون آیا ہے
سرد راتوں کی یخ ہواؤں سے
زرد پتوں کی ہڈیاں چٹخیں
میں یہ سمجھا کس کے پاؤں تلے
راستوں کی اداسیاں ٹوٹیں
میں کہ ہوں آج بھی اسیرِ گماں
میں کہ ہوں اپنے وہم کا زنداں!
چاہت (LII)
تمہیں نہ چاہیں تو کس کو چاہیں
تمہارے رنگیں بدن کو قوسیں
لچک لچک کر دھنک سجائیں
گہُر لٹائیں
تمہارے سینے کے زیرو بم سے
ہزاروں طوفان سر اٹھائیں
تمہاری آنکھیں کلیل کرتے ہوئے غزالاں
تمہاری پلکیں سلونی شاموں پہ رات کو سرمئی جھکاؤ
تمہارے ابرو کھینچی ہوئی دو حسیں کمانیں
تمہارا پیکر
بھڑکتے شعلوں کی خوبصورت اٹھان جیسے
تمہارے عارض
گلاب کی نرم نرم کلیاں
گلال اڑائیں
شفق لٹائیں
نشہ پلائیں
تمہیں نہ چاہیں تو کس کو چاہیں
جلتی بارش (LIII)
کتنی تیز بارش ہے
اور میں اکیلا ہوں
تم نے کتنی برساتیں ساتھ ساتھ کاٹی تھیں
کیسے کیسے طوفاں سے
ساتھ ساتھ گزرے تھے
آج میں اکیلا ہوں جل رہی ہے تنہائی
نرم نرم بستر پر
گرم گرم پہلو میں تو بھی جل رہی ہوگی
فرق ہے سلگنے میں
تیرے میرے جلنے میں
کتنی تیز بارش ہے
ہر طرف اندھیرا ہے
اور میں اکیلا ہوں
لمس (LIV)
ان آنکھوں کی نیل جھیل میں
اترا چاند کنول کا روپ
دہک اٹھا کندن سا پِنڈا
بکھر گئے جذبات
انگ انگ سے نغمےپھوٹے
گونجی لہو میں بین
چٹکی ہونٹوں پر چنگاری
دھڑکا من میں پیار
تیز ہوئی سانسوں کی آندھی
نا چا لہو بدن میں
دوڑ گئی گالوں پر لالی
جھک گئے باورے نین
ڈھلک گیا سینے سے آنچل
بھڑکی جوبن آگ
من میں ناچیں دیوداسیاں
چھنک اٹھی پازیب
سیاں انجانےمیں تو نے
چھوا تھا میرا ہاتھ
ایسا دھڑکا لگا تھا من کو
سوئی نہ ساری رات
وہ کہ ہر عہدِ محبت سے مُکرتا ہے (LV)
وہ کہ ہر عہدِ محبت سے مُکرتا ہے
دل وہ ظالم کہ اسی شخص پر مرتا جائے
میرے پہلو میں وہ آیا بھی تو خوشبو کی طرح
میں اسے جتنا سمیٹوں وہ بکھرتا جائے
کھلتے جائیں جو ترے بندِ قبا زلف کے ساتھ
رنگِ پیراہنِ شب اور نکھرتا جائے
مشتہر ہو کے بڑھے اور نکو نائی عشق
دل بھی شائستہ غم ہو سنورتا جائے
عشق کی نرم نگاہی سے حِنا ہوں رخسار
حسن وہ حسن جو دیکھے سے نِکھرتا جائے
کیوں نہ ہم اس کو دل و جان سے چاہیں تشنہؔ
وہ جو اک دشمنِ جاں پیار بھی کرتا جائے
قریۂجاں کو اندھیروں سے بچائے رکھنا (LVI)
قریۂجاں کو اندھیروں سے بچائے رکھنا
دل کو قندیل ہواؤں میں جلائے رکھنا
زندگی کو کہیں مل جائے نہ ساحل کا سکوت
تم ہر اک موج میں طوفان اٹھائے رکھنا
کوئی آئے گا اٹھائے ہوئے کاندھے پہ صلیب
آج مقتل کے دَرو بام سجائے رکھنا
گرمئ شہرِ محبت ہے اسی کے دم سے
دل کی محفل کو بہر رنگ جمائے رکھنا
وہ مرا ان سے شکایت بھی نہ کرنے کا خیال
اور وہ ان کا نگاہوں کو جھکائے رکھنا
قافلے گزریں گے بے حال ادھر سے یارو
دشتِ آشوب میں تم سائے بچھائے رکھنا
کون دنیا میں شریک غم دل ہوتا ہے
اپنا غم اپنے ہی سینے میں چھپائے رکھنا
کچھ نشانی تو رہے موسمِ گُل کی تشنہؔ
ایک پتہ تو ہواؤں سے بچائے رکھنا
کس نے دروازہ ٔ احساس پہ دستک دی ہے (LVII)
کس نے دروازہ ٔ احساس پہ دستک دی ہے
گنبدِ ذات میں پھر ایک صدا گونجی ہے
لوحِ دل پر تو محبت سے مرا نام نہ لکھ
موجۂ ریگ پہ تصویر کہاں رہتی ہے
تیری آواز کھنکتی ہے سرِ پردۂ جاں
دشتِ دل میں جرسِ گل کی صدا آتی ہے
اب بھی کچھ سنگ ادھر آتے ہیں گاہے گاہے
شہر خوباں میں ابھی رسمِ وفا باقی ہے
دل کو آ جاتا ہے سوکھے ہوئے پتوں کا خیال
کانپ جاتا ہوں میں جب تیز ہوا چلتی ہے
کیا کہیں دامنِ گل چاک ہوا ہے یارو
خاک اڑاتی ہوئی کیوں موجِ صبا گزری ہے
ناز ہے مجھ کو بھی اعجازِ مسیحائی پر
میں نے الفاظ میں احساس کی جاں ڈالی ہے
میرے ہاتھوں میں ہی اب سنگ سجیں گے تشنہؔ
میں نے ہی آئینہ خانوں کی بِنا رکھی ہے
تو پھول پھول رہے خوشبوؤں کے آنچل میں (LVIII)
تو پھول پھول رہے خوشبوؤں کے آنچل میں
میں خار خار ہوں آبلوں کے جنگل میں
ترا بدن کہ ترے پیرہن سے چھَنتا ہے
کہ جیسے چاندنی لپٹی ہو سُرخ ململ میں
مری سحر کے اجالے ہیں تیرے عارض پر
مری شبوں کی سیاہی ہے تیرے کاجل میں
ہجومِ ماہ و شاں تھا وفا کی پنگھٹ پر
بدن کی پیاس بھری تھی سبھی کی چھاگل میں
نیم شب کے مسافر بتا کِدھر جائیں
چھُپا لیا ہے چراغوں کو تو نے آنچل میں
ہر ایک شاخ کے دل میں ہے رنگ و بو کی تڑپ
نمو کا ذوق ہے رقصاں ہر ایک کونپل میں
یہ آج چُھوٹی ہے کس کے لہُو کی مہتابی
یہ کس نے جشنِ چراغاں کیا ہے مقتل میں
تو اِس زمین میں چنگاریوں کی فصل نہ بو
اُگی جو آگ تو پھیلے گی سارے جنگل میں
زمین کی پیاس بجھے بھی تو کس طرح تشنہؔ
کہ ایک بوند بھی باقی نہیں ہے بادل میں
نہ دوستی نہ محبت نہ آشنائی گئی (LIX)
نہ دوستی نہ محبت نہ آشنائی گئی
ہمارے ساتھ ہماری شکستہ پائی گئی
وہ جس کا نام قیامت رکھا ہے دنیا نے
اُٹھے گی تیری گلی سے اگر اٹھائی گئی
بنا کے عالم ِ ہستی کو آئینہ خانہ
مری شبیہہ مجھے بارہا دکھائی گئی
کیا ازل سے مجھے گنبدِ حیات میں بند
وہ باز گشت ہوئی تابِ لبِ کُشائی گئی
اٹھے ہیں لوگ باندازِ خودشناسائی
امیرِ شہر بس اب تیری پیشوائی گئی
کیا کھلیں دریا کے جوہر دشت میں (LX)
کیا کھلیں دریا کے جوہر دشت میں
ریت کا ہے اک سمندر دشت میں
روشنی بھی آگ برسانے لگی
آ گیا سورج بھی سر پر دشت میں
گلستاں ہے برگدوں کی چھاؤنی
قد نکالیں گے صنوبر دشت میں
چھوڑ آئے کب کا شہرِ آشنا
کون برساتا ہے پتھر دشت میں
خواب کے صورت گرد دیکھو مجھے
مجھ سے ہیں یہ سارے منظر دشت میں
دیدنی ہے یہ بگولوں کا دھمال
ہیں صبا کے اور تیور دشت میں
انجام (LXI)
یاد آتی ہیں بہت وہ خوبصورت لڑکیاں
وہ وفا کے دیس کی نازک بدن شہزادیاں
جن کے ہونٹوں پر تھے نغمے پیار کی تقدیس کے
شرم کی خوشبو سے جن کے جسم تھے مہکے ہوئے
وہ وفا کے دیس کی نازک بدن شہزادیاں
وہ سنہرے جسم چندن کی مہکتی ڈالیاں
وہ اچھوٹی کنیائیں شوخ ، چنچل دیویاں
جانے کن باہوں کی قبروں میں وہ دفنا دی گئیں
جانے کن محلوں کی دیواروں میں چنوا دی گئیں
رُوگ (LXII)
میں نے دِل لگایا تھا
روگ تو لگا بیٹھی
تو میری محبت کو
زندگی بنا بیٹھی
یہ پہاڑ سی راتیں
اور تو اُدھر تنہا
درمیاں کی دیواریں
کون اب گرائے گا
میں تجھے بھلا بیٹھا
تو بھی بھول جا مجھ کو
زندگی میں وعدوں کی
ایسی پاسداری کیا
گردِ ملال (LXIII)
وہ کھڑکیاں وہ دریچے وہ بام و در کہ جہاں
کبھی ستارے کبھی پھول مسکراتے تھے
جہاں شکار ہوا تھا ہزاروں باریہ دل
جہاں گلاب سے چہرے دھنک سجاتے تھے
وہ کھڑکیاں بھی ہیں ویران وہ دریچے بھی
نہ وہ گلاب سے چہرے نہ اب وہ پھول نہ چاند
کہ آج سب وہ مناظر خیال و خواب ہوئے
محبتوں کے وہ لمحے بڑے عذاب ہوئے
ملی ہے وقت نے گردِ ملال چہروں پر
ہنسی کا زخم (LXIV)
اس نے میرے کان میں
اک بات چپکے سے کہی
اور ہنس پڑی
میں اسی اک بات کو
تنہائی کے لمحات میں
دُہرا کے اکثر رو دیا
کہو یارو تمہیں کیسا لگے ہے (LXV)
کہو یارو تمہیں کیسا لگے ہے
وہ ظالم جو مجھے اچھا لگے ہے
مہینے بھر میں یہ مہتاب لوگو
بس اک دو دن ہی اُن جیسا لگے ہے
جہاں بھٹکا تھا میں پہلے بھی اے دل
مجھے تو یہ وہی رستہ لگے ہے
قیامت پھر کوئی ٹوٹے گی دل پر
مجھے اک اجنبی اپنا لگے ہے
ہے عبرت کو مآلِ گُل ہی کافی
مجھے ہنستے ہوئے ڈرسا لگے ہے
وہ ہے اک بابِ تاریخ ِ گلستاں
تمہیں جو برگِ آوارہ لگے ہے
غضب لوگوں محبت آشنا دل
اسے اترا ہوا شیشہ لگے ہے
خدا رکھے مرا وہ دشمنِ جاں
مجھے جان سے پیارا لگے ہے
نہ جانے تم نے کیا تشنہ ؔ میں دیکھا
ہمیں تو کوئی دیوانہ لگے ہے
اس نے بھی دلداری کی (LXVI)
اس نے بھی دلداری کی
جو میرا غمخوار نہ تھا
میرے قامت سے اونچا
کوئی ستونِ دار نہ تھا
کب ہم سے اس زنداں میں
جشنِ صلیب و دار نہ تھا
لوگو ہم تھے سولی پر
مقتل میں تہوار نہ تھا
اس رستے پر بھٹکے ہم
وہ رستہ دشوار نہ تھا
اس رستے پر چل نکلے
وہ رستہ ہموار نہ تھا
بڑی بڑی دستاروں میں
ایک بھی تو سردار نہ تھا
ناموں کی فہرستیں تھیں
جذبوں میں ایثار نہ تھا
بزم میں خوش گفتار کوئی
محروم گفتار نہ تھا
محفل تھی وہ یاروں کی
شاہوں کا دربار نہ تھا
ہم خود اپنے دشمن تھے
کوئی پس دیوار نہ تھا
پتی پتی بکھر گئی (LXVII)
پتی پتی بکھر گئی
اتنی مہنگی ایک ہنسی
کتنے دکھ دے جاتی ہے
یادد کوئی بھولی بسری
جس کو چاہا تھا میں نے
مورت تھی وہ پتھر کی
پھر نہ کبھی دیکھا اس کو
دید کی محفل پھر نہ جمی
شام کے دھندلے ساحل پر
ملی تھی ہم کو اک لڑکی
نگے پاؤں وہ سردی میں
ٹھنڈی ریت پر بیٹھی تھی
بدن سنہرا کندن سا
تپی ہوئی وہ چاندی تھی
سلگ رہی ہے تَن مَن میں
اس کے سانسوں کی گرمی
لرز رہے تھے لب اس کے
انکھیں تھیں بھیگی بھیگی
میخانوں کے بس کی نہیں
تشنہؔ تیری تشنہؔ لبی
ہم تم روز ہی ملتے تھے (LXVIII)
ہم تم روز ہی ملتے تھے
جذبے کتنے سچے تھے
پیار کی پہلی بارش میں
دیر تلک ہم بھیگے تھے
جسم کا جنگل پیاسا تھا
روح پہ بادل برسے تھے
دیر تلک خاموشی سے
دونوں چاند کو تکتے تھے
پھر اپنی خاموشی پر
ہم دونوں ہنس دیتے تھے
تنہائی کے صحرا میں
یادوں کے سناٹے تھے
میرے گھر کے آنگن میں
کتنے پتھر بکھرے تھے
اب وہ مجھے لوٹا دینا
جو خط تم کو لکھے تھے
بیچ سمندر میں رہ کر
بوند بوند کو ترسے تھے
پتہ چلا تعبیروں سے
جھوٹے سپنے دیکھے تھے
دیر تلک ہم راتوں کو
تیرا رستہ تکتے تھے
تشنہؔ جن سے چشمک تھی
وہ سب یار پرانے تھے
گرمی سی ترے جسم کی محسوس ہوئی ہے (LXIX)
گرمی سی ترے جسم کی محسوس ہوئی ہے
گھبرا کے کئی بار مری آنکھ کھلی ہے
آیا ہے وہ خورشید قبا خلوت جاں میں
یہ پیر ہنِ شب کے مسکنے کی گھڑی ہے
کھینچے ہے تصور لب و رخسار کے نقشے
دیکھا نہیں اس کو مگر آواز سنی ہے
آئے ہیں دریچوں میں نظر چاند ستارے
جس سمت سے گزرا ہوں بڑی دھوم مچی ہے
اے شہرِ نگاراں کے سفیرو مجھے دیکھو
اک عمر مری زہرہ جمالوں میں کٹی ہے
وہ لڑکی (LXX)
دور کسی انجان نگر میں
نین کنول کے دیپ جلائے
جانے کیا کیا آس لگا ئے
وہ مرا رستہ تکتی ہے
وہ لڑکی کتنی بھولی ہے
بچھڑے میت کہیں ملتے ہیں
کون اسے یہ بات بتائے
جینے کے انداز سکھائے
ہوا کا لہجہ (LXXI)
یہ کاروبار ِ چمن ہے ہوا کے لہجے پر
ہوا جو غیظ میں آئے تو
خاک اڑنے لگے
ہر ایک پودے کا ننھا سا دل دہلنے لگے
ہر ایک شاخ ہو لرزاں شجر ہراساں ہوں
ہوا کا نرم ہو لہجہ
تو پھول کھلنے لگیں کونپلیں مچلنے لگیں
ہر ایک شاخ کے پیروں میں گھونگر و چھنکیں
ہر ایک پیڑ سے نغموں کی مستیاں برسیں
نظر لگائے رہو تم ہوا کے لہجے پر
مجھ سے منہ پھیر کے جانے والے (LXXII)
مجھ سے منہ پھیر کے جانے والے
کیا کہیں گے یہ زمانے والے
تو مری سوچ سے بڑھ کر نکلا
رشتۂ درد نبھانے والے
کیا ہوئے تیری گلی کے وہ لوگ
وہ جو تھے حشر اٹھانے والے
مجھے کو بھی اذنِ تبسم دیتا
باغ میں پھول کھلانے والے
تُو میری روح میں اترا ہوتا
میرے پہلو میں سمانے والے
میری دنیا میں اندھیرا کیوں ہے
ماہ و خورشید بنانے والے
اب نہیں تابِ سماعت مجھ میں
قصّۂ دَرد سنانے والے
آخرش سیکھ لئے تو نے بھی
سارے انداز زمانے والے
بن کے تعبیر بھی آیا ہوتا
نت نئے خواب دکھانے والے
خمیازہ (LXXIII)
” آپ ارے اس وقت یہاں
اندر آ جائیں
دن کو ہمارے گھر آنے کی زحمت کیسی
یہ گھر تو راتوں کو ہی اچھے لگتے ہیں
اور ہم
جگمگ روشنیوں میں جھلمل کرتے کھلونے ہیں
راتوں کو ہی جن سے کھیلا جاتا ہے
میری آنکھوں کے یہ حلقے
راتوں کو کم سونے کا خمیازہ ہیں”
وعدہ (LXXIV)
حسبِ وعدہ میں نے دروازے پہ دستک دی
چھناکا سا ہوا
بام و در چونکے خموشی کلبلا کر رہ گئی
گنبدِ کہنہ کے گوشوں سے ابابیلیں اڑیں
پھر وہی خاموشیوں کا اک سکوتِ بے کراں
اور میں صحرا کے داماندہ مسافر کی طرح
اپنے مستقبل کی ناہموار راہوں پر چلا
دور تک آتی رہی ماضی کی رونے کی صدا
ہوائے درد کچھ ایسی چلی تھی (LXXV)
ہوائے درد کچھ ایسی چلی تھی
طنابِ خیمۂ جاں کھنچ رہی تھی
کسی کو مہرباں سمجھا تھا ہم نے
وہ ساری خواب کی صورت گری تھی
چلی اب حسرتیں بھی شہر ِ دل سے
یہ بستی کتنی مشکل سے بسی تھی
جہاں دیکھا تھا اکدن چاند ہم نے
وہ کھڑکی آج بھی سونی پڑی تھی
جو تھی اک دن ملاقاتوں کی جنت
وہ شاید میری خوابوں کی گلی تھی
جلوسِ عاشقاں نکلا تھا تشنہؔ
تماشے کو بڑی خلقت کھڑی تھی
قریہ ٔ جاں تجھے ہم یاد تو آتے ہوں گے (LXXVI)
قریہ ٔ جاں تجھے ہم یاد تو آتے ہوں گے
کبھی افسانوں کی صورت کبھی خوابوں کی طرح
دوستو یہ بھی محبت کی جزا ہے شاید
ہم پہ ہر لمحہ گزرتا ہے عذابوں کی طرح
آگہی جہل ِ نمائش کے بہت کام آئی
ہم سجائے گئے طاقوں میں کتابوں کی طرح
سرخروئی تو مقدر ہے اُسی کا یارو
جو کفِ خار میں کھِلتا ہے گلابوں کی طرح
وہ کہ جن سے تھی کبھی انجمن آرائی شب
ہم سے اب ملتے ہیں وہ بند کتابوں کی طرح
ظرف ہر جام کا ہم دیکھ چکے ہیں تشنہؔ
ہم ہر اک بزم میں چھلکے ہیں شرابوں کی طرح
شراب (LXXVII)
تجھے بھی پھونک کے رکھ دے یہ شعلۂ افکار
ترا بدن بھی مجسم شرار بن جائے
عذابِ زیست میں ہو تو بھی مبتلا اک دن
جو پھول ہاتھ میں آئے وہ خار بن جائے
ہوں تیرے جیب و گریباں بھی تار تار اک روز
ترے لئے ترا جھولا بھی دار بن جائے
یہ بد دعا ہے مری تو بھی ہو اسیرِوفا
جو تیرے دل میں ہے نفرت وہ پبار بن جائے
آدرش (LXXVIII)
تو بھی ایسا گیت گا
جس میں میرے دور کی خوشیاں بھی ہوں اور غم بھی ہوں
وہ خوش جو روح کی پہنائیوں میں
(زندگی کی شعلہ سامانی کے ساتھ)
شبنمی سا لمس دے
لمس پہلی رات کی دلہن کی نرم آغوش کا
اور وہ غم
جیسے اک ماں اپنے اکلوتے جواں بیٹے کی ٹھنڈی لاش پر
ہو نوحہ خواں
وہ فغاں وہ آہ جو پتھر کو بھی پانی کرے
تو بھی ایسا گیت گا
ہر ایک سانس پہ پہرہ بٹھا دیا جائے (LXXIX)
ہر ایک سانس پہ پہرہ بٹھا دیا جائے
فضا میں دامِ سماعت بچھا دیا جائے
یہ حکم ہے کہ مقفل ہوں سارے دروازے
تمام شہر کو زنداں بنا دیا جائے
جو لَب کشا ہو کائی کاٹ دو زباں اس کی
جو سر بلند ہو وہ سر جھکا دیا جائے
کوئی چراغ سرِ شام ہو کہیں روشن
چلی ہے رسم کہ وہ گھر جلادیا جائے
بلاؤ پھر سرِ مقتل مرے رقیبوں کو
حسابِ قرض ِ رفیقاں چکا دیا جائے
جو رہزنوں سے بچا لائے تھے وہ نقدِ حیات
بنام قریہ یاراں لُٹا دیا جائے
شرر کی آگ سے پگھلا نہ پتھروں کا وجود
غرورِ سنگ کو تشنہؔ مٹا دیا جائے
گجر (LXXX)
تم بھی جاگو نیند کے ماتو
جاگو ہوا سویرا
باج رہے ہیں بھور کے کنگن
پھیلا اجیاروں کا کندن
ڈھلک گیا دھرتی کے سر سے
اندھیاروں کا رین دوشالا
پورب کے آکاش پہ ناچی
کرنوں کی چنچل مدھو بالا
اک اک کر کے چاند ستارے
نیل جھیل میں ڈوبے
سر پہ پہنے مکٹ سنہرا
سورج دیو براجے
ڈال ڈال پہ چہکے پنچھی
پنکھ پکھیرو جاگے
ٹوٹ گئی نندیا کی مالا
پورب پر پھر جو بن آیا
پچھم کے دن بیتے
خالی پیٹ یہ ہمت والے
ہانکے چھیلے جیتے
مست فضاؤں میں لہرایا
پھر گلنار پھریرا
تم بھی جاگو نیند کے ماتو
جاگو ہوا سویرا
مثالِ موج ِ صبا ہم چمن میں آئے تھے (LXXXI)
مثالِ موج ِ صبا ہم چمن میں آئے تھے
بہار بن کے تری انجمن میں آئے تھے
غبارِ شام و سحر تھا ہمارے شہرے پر
ہم آفتاب تھے لیکن گہن میں آئے تھے
شکستہ گام لہو پیرہن رسن بہ گلو
شکار ہو کے غزالاں ختن میں آئے تھے
لُٹا کے قافلۂ جاں بنامِ دیر و حرم
غریب ِ شہر ، دیارِ وطن میں آئے تھے
ہنسا تھا ہم پہ بھی تشنہؔ ہجوم کم نظراں
لئے صلیب ِ سخن شہرِ فن میں آئے تھے
مآل صبح بہاراں تمہیں مبارک ہو (LXXXII)
مآل صبح بہاراں تمہیں مبارک ہو
یہ چاک چاک گریباں تمہیں مبارک ہو
شکستِ گوہر شبنم پہ رو رہا ہوں میں
تبسم ِ گل ِ خنداں تمہیں مبارک ہو
لہو لہو یہ اجالا یہ زخم زخم چراغ
یہ جشنِ شام ِ شبستاں تمہیں مبارک ہو
شکستِ آئینہ ٔ دل نے یہ صدا دی ہے
یہ شورِ بزمِ نگاراں تمہیں مبارک ہو
ہمارے ساتھ ہے تشنۂ ہجومِ دل زدگاں
جلوسِ تختِ سلیماں تمہیں مبارک ہو
غزالِ شوق ہے آوارۂ ختن کب سے (LXXXIII)
غزالِ شوق ہے آوارۂ ختن کب سے
عذابِ زیست میں ہے پیکر ِ بدن کب سے
میں جبرِ ذات کے بن میں ہوں کب سے آبلاپا
ہے تار تار انا کا یہ پیرہن کب سے
اداس چہروں پہ لکھی ہوئی ہے محرومی
ہے بے چراغ دلوں کی یہ انجمن کب سے
دیا گیا ہے مجھے اپنے آپ میں بن باس
دیارِ زات میں پھرتا ہوں بے وطن کب سے
کبھی موجۂ ابرِ کرم ادھر بھی نظر
ترس رہا ہے بہاروں کو یہ چمن کب سے
کہیں ہیں دار کی باتیں کہیں صلیب کا ذکر
ہے درمیاں میں ہی یہ قصّہ رسن کب سے
میں اپنی فکر کے زنداں میں قید ہوں تشنہؔ
ہے بندِ طوق وسلاسل مرا سخن کب سے
انتظار (LXXXIV)
میرا یہ بے روح سا پیکر
پت جھڑ کے موسم میں ایک سوکھا سا شجر
بے برگ و ثمر
روز و شب کے تپتے ہوئے میداں میں ہے کب سے
موسمِ گُل کی آس لگائے
کوئی ہوا کا نرم سا جھونکا
مجھ میں سمائے
پھول کھلائے
کونپل کونپل خواب جگائے
ڈالی ڈالی جھومے گائے
میرے دل میں جینے کا ارمان جگائے
میرے دکھوں کا کوئی مداوا کوئی علاج
کوئی تو آئے!
ارادہ جب بھی کرتا ہوں سفر کا (LXXXV)
ارادہ جب بھی کرتا ہوں سفر کا
خیال آتا ہے تیری رہگزر گا
نہ ٹہرائے سے ٹہرا شہرِ دل میں
وہ باسی تھا نہ جانے کس نگر کا
کوئی سورج مقابل آ گیا ہے
شجر سے بڑھ گیا سایہ شجر کا
اسی جانب رواں ہے شہر سارا
یہی رَستہ ہے شاید تیرے گھر کا
نہ طے ہم سے ہوا جو زندگی بھر
وہ سارا فاصلہ تھا اک نظر کا
سبھی ہیں اجنبی تیری گلی میں
پتہ اب کس سے پوچھوں اپنے گھر کا
میں بھی تنہا تھا اور رات بھی تھی (LXXXVI)
میں بھی تنہا تھا اور رات بھی تھی
تو جو آتا تو کوئی بات بھی تھی
وہ نظر ہم سے جو کبھی نہ ملی
وہ نظر جانِ التفات بھی تھی
ایک پل میں بدل گئی دنیا
تو بدلتا تو کوئی بات بھی تھی
کیا قیامت کہ تیرے عشق کے ساتھ
مجھ پر پابندئ حیات بھی تھی
تھا وہ جس دم شریک خلوتِ جاں
وہ گھڑی شرحِ کائنات بھی تھی
جانے کیا ہو گئے وہ دن تشنہؔ
جب محبت شریک ِ ذات بھی تھی